ؔ
اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اس نوزائیدہ یونیورسٹی نے گندھارا سٹڈی سنٹر کے نام سے علاقہ کی تاریخ و ثقافت پر تحقیق و تدریس کا نیا شعبہ قائم کیا ہے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سنٹر کا افتتاح کرنے کے موقع پر سنٹر کی تحقیقی اور تدریسی سرگرمیوں کے لئے 5کروڑ روپے کا خصوصی گرانٹ دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سنٹر میں ہونے والا کام دوسری یونیورسٹیوں کیلئے ایک مثال بنے گا ”خبر“کے لحاظ سے کسی یونیورسٹی میں نئے شعبے کا افتتاح بڑی خبر نہیں بنتی تاہم اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں جس شعبے کا افتتاح ہواہے یہ بڑی خبر ہے جس خطے میں ہم رہتے ہیں یہ خطہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کا سنگم کہلاتا ہے اس خطے میں تاشقند کی یونیورسٹی کو عالمی شہرت حاصل ہے تاجکستان کے شہر خوروگ میں یونیورسٹی آف سنٹرل ایشیا بھی عالمی سطح کی یونیورسٹی ہے اگر انقلابِ ثور کامیاب ہوجاتا تو اب تک کابل کی یونیورسٹی بھی عالمی سطح کی جامعات میں نام پیدا کرنے کے قابل ہوتی پشاور یونیورسٹی کا ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیا اور قائد اعظم یونیورسٹی کا انسٹٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز عالمی شہرت کے حامل ادارے ہیں پشاور اور خیبر پختونخوا کے علمی،ادبی اور ثقافتی حلقوں کی طرف سے پشاور کی کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں گندھارا چئیر یا گندھارا سٹڈی سنٹر کی تجاویز بار بار آرہی تھیں 2005میں گندھارا بندکو بورڈ کے زیراہتمام پہلی عالمی بند کو کانفرنس کی قراردادوں میں اہم قرارداد یہ تھی کہ پشاور کی کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں گندھارا چئیر قائم کیا جائے اس کے بعد 6عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں ہر کانفرنس میں یہ قرارداد دہرائی گئی اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں مروجہ مضامین مثلاََ انگریزی،اردو، فزکس،کیمسٹری، اسلامیات،عربی وغیرہ کے تمام شعبے قائم ہیں گندھارا سٹڈی سنٹر کے نام سے نیا شعبہ قائم کرکے یونیورسٹی انتظامیہ،سینیٹ،سینڈی کیٹ،بورڈ آف ریسرچ اینڈ ایڈوانس سٹڈیز،فیکلٹی اور وائس چانسلر نے انقلابی قدم اٹھایا ہے اس نئے ادارے کا بنیادی کام تحقیق ہے اور گندھارا کے حوالے سے تحقیق کا میدان بیحد وسیع ہے اس کا دائرہ خیبر پختونخوا سے گلگت کشمیر اور پنجاب تک پھیلا ہوا ہے گندھارا تہذیب کے نمونے اور آثار کا جائزہ لیا جائے تو پشاور،چارسدہ،تخت بھائی،چلاس،اٹک اور ٹیکسلاتک اس کا دامن پھیلا ہوا ہے پاکستان سے باہر جاپان،سری لنکا،نیپال،بھوٹان،چین،کوریا،جاپان اور میانمر تک گندھارا تہذیب کے نقوش پائے جاتے ہیں جاپان اور چین کی یونیورسٹیوں میں اس پر بہت کام ہوا ہے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے بے پناہ دلچسپی پائی جاتی ہے اب تک ہماری طرف سے اس تہذیب پر تحقیقی اور تدریسی کام نہیں ہوا ہم نے بہت زور لگایا تو کسی عجائب گھر سے دوچار نوادرات اور عجائبات کو چوری کرکے امریکہ،برطانیہ،فرانس یا جرمنی میں فروخت کیا اس سے زیادہ حصہ ہم نے کبھی نہیں ڈالا ہمارے ہاں ایسے علمی ادارے ہی نہیں تھے جہاں گندھارا تہذیب پر علمی اور تحقیقی کام کی بنیاد رکھ دی جاتی اس حوالے سے ڈاکٹر احمد حسن دانی کا کام بیحد اہمیت کا حامل ہے مگر اس کام کی بنیاد پر کسی یونیورسٹی میں مستقل شعبہ قائم نہیں ہوا موجودہ دور کے محققین میں ڈاکٹر احسان علی کے کام کو عالمی سطح پر شہرت ملی ہے گندھارا تہذیب کے حوالے سے ان کے جو تحقیقی مقالات شائع ہوئے وہ بیحد اہمیت کے حامل ہیں ان کے زیرسایہ کام کرنے والے محققین کا کام جاری ہے اگر اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے گندھارا سٹڈی سنٹر نے ماضی اور حال کے تمام کاموں کو یکجا کرکے تحقیق و تدریس کا سلسلہ آگے بڑھایا تو یہ علم کے متلاشیوں کے لئے بہت بڑی خدمت ہوگی مجھے آج قائد اعظم کی تقریرکا ایک جملہ یاد آرہا ہے اپریل 1948 میں گورنر جنرل کی حیثیت سے پشاور کا دورہ کرکے بابائے قوم نے خیبر یونین ہال میں اسلامیہ کالج کے اساتذہ اور طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”اس ادارے میں علم کی جو شمع روشن ہوگی اس کی کرنیں پورے وسطی ایشیا کو منور کرینگی“اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حبیب احمد اور ان کے رفقائے کار بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک بڑے کام کا بیڑا اٹھایا چینیوں کا مقولہ ہے کہ ہزار میل کاسفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے یہ سنٹر قائد اعظم کے فرمودات کا عکس اور ہزار میل کے سفر کا پہلا قدم ہے