دھڑکنوں کی زبان۔۔ یہ تھکے ماندے ہارے لوگ۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

الف تین دفعہ وزیر اعظم بن چکا ہے ابھی چوتھی بار کے لئے اتنا پریشان ہے کہ گویا اس نے کبھی اسمبلی دیکھی ہی نہیں ہے۔۔ب۔۔فوج کے بڑے عہدوں سے لے کر صوبے کے گورنر تک رہ چکا ہے ابھی لگتا ہے کہ کسی معمولی عہدے کی کرسی پہ بھی بیٹھا نہیں ہے۔۔
ج۔۔صوبائی اسمبلی کی سیٹ پہ کئی بار رہ چکا ہے۔۔ابھی قومی اسمبلی کے لئے اتنا پریشان ہے گویا کہ یہ کبھی اسمبلی ہال دیکھا ہی نہیں ہے۔۔
د۔۔فرسٹ کلاس کا ٹھیکدار ہے کئی بلڈنگیں بناچکا ہے۔۔بینک بلنس ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ کبھی پیسہ دیکھا ہی نہیں ہے۔۔سرکاری ملازم پنشن لینے کے بعد ایسا لگے گا کہ وہ ایک بار بھی تنخواہ لی ہی نہیں۔۔سب حیران و پریشان،سب سرگردان۔۔سب زندگی کے ہاتھوں ہارے ہوئے۔۔زندگی نے ان کو بہت کچھ دیا۔۔وہ کہتے ہیں کچھ نہیں دیا۔۔زندگی نے خوشی دی۔۔وہ کہتے ہیں آنسو دیا۔۔ زندگی نے دولت دی وہ کہتے ہیں کچھ نہیں دیا۔۔زندگی نے پھول دیا۔۔ وہ کہتے ہیں کہ کانٹا دیا۔۔ یہ تھکے ہارے بے وفا لوگ۔۔یہ احسان فراموش کچ ادا لوگ۔۔یہ لوگ مطمین کیوں نہیں ہوتے۔۔الف۔۔ب۔۔ جیم سب پریشان۔۔وقت کا جو دورانیہ ان کو دیا گیا۔۔ ۔۔یہی ان کو بھی دیا گیا جن کو زندگی نے کچھ نہیں دیا۔۔نہ رہنے کو گھر۔۔نہ کھانے کو روٹی۔۔ نہ پہننے کو ڈھنگ کا کپڑا۔۔۔۔جیب خالی آنکھوں میں افسردگی۔۔تنہائی کا شکار۔۔انسانوں کے ہجوم میں تنہا۔۔ان کو شریف ہونا ہے۔۔ان کو سر جھکانا ہے۔۔ان کو منہ چھپانا ہے۔۔ان کو ہاتھ پھیلانا ہے۔۔ان کو ادب سے نیچی آواز میں باتیں کرنی ہے۔۔ان کی جوانی کی کوئی قیمت نہیں۔۔ان کا حسن ارزان ہے۔۔ان کی نشیلی معصوم اکھیوں میں عضب کی کشش ہے مگر ان کو کوئی سرمگین نہیں کہتا۔۔ان کی نرگیسی آنکھوں کو صرف نیلی کہا جاتا ہے خوبصورت نہیں کہا جاتا۔۔لیکن یہ مطمین ہیں۔۔ان کے مقابلے میں جن کو زندگی نے سب کچھ دیا۔۔تھکے ماندے ہارے ہوئے ہیں۔۔حیران و پریشان و سرگردان ہیں۔۔ ان کے لئے ہر لمحہ عذاب ہے۔۔فکر کے ہاتھوں دق ہیں۔۔ان کو اپنے کپڑوں کی فکر ہے خوراک پوشاک کی فکر ہے۔۔محلے بنگلوں کی فکر ہے۔۔اپس میں ایک مقابلہ ہے۔۔دوڑ دھوپ ہے۔۔درمیان میں ان کی صحت خراب ہوجاتی ہے۔۔کمائی علاج میں گھل جاتی ہے۔۔پھر موت سر پہ آکھڑی ہوتی ہے۔۔وہ انگشت بدندان ہوتے ہیں۔۔حیران و پریشان ہوتے ہیں۔۔یہ عیاشیوں سے تھکتے ہیں۔۔دولت کی تجوریوں سے تھکتے ہیں۔۔آرام کرسی میں بیٹھنے سے بیزار ہوتے ہیں۔۔زندگی ان کو تھکا دیتی ہے۔۔وقت ان کو دھوکہ دیتا ہے۔۔رنگیاں خواب ہیں وہ ان خوابوں کے سہارے وقت گنوا دیتے ہیں۔۔راجا ابراہیم اودھم بڑا عیاش ہوا کرتا تھا۔۔ایک د ن شکار پہ گیا ہو ا تھا۔۔کنیز نے اس کے سونے کا کمرہ درست کیا۔۔نرم بچھونوں پہ ہاتھ پھیری۔۔آرزو ہوئی کہ ایک لمحے اس پہ سر رکھ کے سویا جائے۔۔سر رکھتے ہی اس کو نیند آگئی۔۔ایسے سوئی کہ اودھم شکار سے واپس آیا۔۔دیکھا کہ کنیز اس کے بستر پہ سوئی ہوئی ہے اس کو خوب مارا۔۔کنیز پہلے رونے لگی پھر کھلکھلا کے ہنسی۔۔اودھم حیران ہو ا۔۔وجہ پوچھا تو کنیز نے کہا۔۔مجھے تم پہ ہنسی آتی ہے۔۔اس نرم بچھونے پہ میں چند لمحے کے لئے سوئی تو اتنی مار پڑی۔۔ تم ساری عمر اس پہ سوتے رہے ہو۔۔قیامت کے دن تمہارا کیا حشر ہوگا۔۔اودھم چیخ اٹھا۔۔حقیقت کی آنکھیں وا ہوگیں۔۔محل چھوڑ کے ایسے چلا۔۔کہ پھر واپس نہیں آیا۔۔اس کی سب پریشانیاں ختم ہوگیئں۔۔اگر بڑھاپا نہ ہوتا۔۔اگر موت نہ ہوتی۔۔اگر محلات اقتدار اور کرسی کی کوئی گیرنٹی ہوتی تو بجا تھا۔۔ یہ سب دو دن کی ہیں۔۔ دو دن کی حیثیت ہی کیا ہے۔۔۔الف۔۔با۔۔جیم۔۔ دال کو چاہیے کہ زندگی کو حقیقت کی نظر سے دیکھیں۔۔اگر خوشیاں ہیں تو وہ اپس میں بانٹیں۔۔اگر مصیبتیں ہیں تو ان کو مل کر شکست دیں۔۔مجھے ان شکست خوردہ پریشان اور تھکے ہارے لوگوں پہ ترس آتا ہے۔۔زندگی دینے والے نے اس کو بہت اسان اور سیدھا سادہ بنایا ہے۔۔اس کو گزارنے کے گر بھی سیدھا سادہ ہیں۔۔یہ فانی ہے۔۔ مختصر ہے اور خوبصورت ہے۔۔اس کاہر ہر پل خوبصورت ہے۔۔جہان امیری میں خوبصورتی ہے وہاں غریبی میں اس سے بھی زیادہ خوبصورتی ہے۔۔جھونپڑیوں کے اندر محلوں کے اندر سے بھی خوبصورتی ہے۔۔ایک غریب شریف زادے کی آنکھوں میں ایک امیر زادے کی آنکھوں سے زیادہ معصومیت اور چمک ہے۔۔ایک مزدور کے گھر پکائی ہوئی سادہ ساک میں ایک امیر کے گھر میں انواغ و اقسام کے ہفت خوان سے زیادہ لذت ہے۔۔سردار دوجہانﷺ کو فرش پہ آرام ملتا تھا۔۔ ہمیں کیوں نہیں ملتا۔۔فاروق اعظمؓ اپنے سرہانے اینٹ رکھا کرتے تھے آپ ؓ کو سکوں کی نیند آتی تھی۔۔ہمیں کیوں نہیں آتی۔۔ان کے کپڑوں میں پیوند سجتے تھے ہمارے قیمتی کپڑے ہمیں سکون سے محروم کیوں کر دیتے ہیں۔۔ہم تھکے ماندے ہارے لوگ زندگی کے ہاتھوں آخر کو ہار جاتے ہیں اور ڈھیر ہوکر خاک کا رزق بن جاتے ہیں۔۔