داد بیداد۔۔۔۔محکمہ تعلیم کے مانیٹرنگ یونٹ کا مستقبل۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

محکمہ تعلیم کے مانیٹرنگ یونٹ کا مستقبل
خبر آئی ہے کہ محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا کا مانیٹرنگ یونٹ مستقبل نہیں ہوگا اب یہ آنے والی حکومت کی مرضی ہوگی اس کو جاری رکھے یا بند کرے خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے پاس جو رپورٹیں ہیں ان کے مطابق مانیٹرنگ یونٹ کا پراجیکٹ دوسرے پراجیکٹوں سے مختلف تھا محکمہ صحت نے مانیٹرنگ یونٹ کو ریگولرائز کردیاتو اس کو کرنا چاہیے تھا محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کا اپنا دائرہ کار ہے اس کا پراجیکٹ الگ نوعیت کا ہے جہاں سکیل 17سے نیچے کے ملازمین کو پراجیکٹ کی تنخواہ دینے کی اجازت نہیں اس یونٹ کو شروع کرتے وقت کہا گیا تھا کہ یہ مستقل نہیں ہوگا محکمہ تعلیم اس کی مستقلی قبول نہیں کرے گا چنانچہ جون 2018ء میں موجودہ حکومت کی مدت کے ساتھ انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ کا بوریا بستر گول ہوگااخبارات میں ایسی خبریں بھی آگئی ہیں کہ مانیٹرنگ یونٹ کے ملازمین نے دیر، چترال، بٹگرام، کوہستان، ڈی آئی خان اور کرک جیسے دور دراز اضلاع اور پشاور، نوشہرہ یا مردان جیسے مرکزی شہروں سے جلو س کی شکل میں بنی گالہ جاکر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے گھر پر ”دھرنا“ دیا دھرنے کے نام سے خان صاحب کو اچھل پڑنا چاہیے تھا مگر اطلاع یہ ہے کہ خان صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کا کام ہے صوبائی حکومت کی کسی شخصیت نے کہا ”ہماری بلّی اور ہمیں ہی میاؤں میاؤں“ پی ٹی آئی کے زرین دور کا یہ واحد دھرنا تھا جو کامیاب نہیں ہو ا، ورنہ اس دور میں ”دھرنے“ کو ہر مرض کی دوا کا درجہ حاصل ہے تفنن برطرف پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی حکومت کے کھاتے میں صرف تین نیک نامیاں آگئی تھیں پہلی نیک نامی NTS کے ذریعے اساتذہ کی بھرتی ہوتی تھی اس پر نیب نے مقدمہ دائر کرکے NTS والوں کو پکڑا ہے معاملہ گڑ بڑ ہے دوسری نیک نامی خود مختار احتساب کمیشن کی تھی اسے صوبائی حکومت نے کُتر کُتر کر بال و پر نوچنے کے بعد گھر بٹھا دیا اب اس کا مزار ہی رہ گیا ہے تیسری بڑی نیک نامی انڈ ی پنڈنٹ مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے اساتذہ کی حاضری کو یقینی بناکر سکولوں کے اندر تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کی تھی اور اس کے ایسے نتائج برآمد ہوئے تھے جنہیں ”پٹواری“ بھی بلا چون و چرا تسلیم کرتے تھے اپنی 5سالہ حکومت کے آخری 6مہینوں میں مانیٹرنگ یونٹ کے ملازمین کی مستقلی سے انکار کرکے صوبائی حکومت نے اپنے پاؤ ں پر کلہاڑی کا وار کیا ہے سول سکرٹریٹ پشاور اور خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد کے با خبرذرائع اس حوالے سے دو باتوں پر زور دیتے ہیں اور ان دو باتوں کو حکومت کی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اندر پارٹی کیڈربہت کمزور ہے ضلعی کابینہ کا ڈویژنل کابینہ کے ساتھ کوئی ربط،کوئی خط و کتابت کوئی ذریعہ ابلاغ نہیں ہے پارٹی کی ہائی کمان نچلی سطح کے ورکروں اور عہدیداروں سے رائے نہیں لیتی، فیڈ بیک (Feed Back) کا سسٹم کمزور ہے حکومت کو اور پارٹی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا کام نیک نامی والا ہے کونسا کام بدنامی کا پاعث ہے؟ پارٹی قیادت کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ صوبے کے اندر اسٹبلشمنٹ کسی اور کی ہے پی ٹی آئی کی نہیں اکثر محکموں میں پی ٹی آئی سے زیادہ اس کے مخالفین کی دال گلتی ہے محکمہ تعلیم کے ضلعی حکام بھی مانیٹرنگ یونٹ سے تنگ آگئے تھے صوبائی سطح پر مانیٹرنگ یونٹ کو باقاعدہ طور پر
”ناپسندیدہ یونٹ“ قرار دیا گیا تھا کیوں کہ ان کے لاڈلے کھیلنے کو چاند مانگتے ہیں مانیٹرنگ یونٹ کباب میں ہڈی کی طرح ہے محکمہ تعلیم میں بیٹھے ہوئے 20 افسروں کے 400 لاڈلے سعودی عرب، دوبئی، شارجہ، ملائشیا اور مالدیپ میں بیٹھے تھے خیبر پختونخوا کے سکولوں سے ہر ماہ ا ن کو تنخواہ ملتی تھی مانیٹرنگ یونٹ نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا نظامت تعلیمات کی راہداریوں میں ایم ایم اے کی بحالی کا جشن منایا گیا تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دینی جماعتوں کا اتحاد پی ٹی آئی کی جگہ حکومت بنائے گا اور مانیٹرنگ کے عذاب سے ہم کو، ہماری اولاد کو، دوست احباب کو نجات دلائے گا بھوت سکولوں اور بھوت اساتذہ کا سلسلہ پھر سے چل پڑے گااس لئے وزیر تعلیم اور صوبائی چیف ایگزیکیٹو کے لئے ایسی رپوٹیں تیا ر کی گئیں جو ان کے مذموم عزائم کی تکمیل میں مددگار ہوسکتی تھیں چنانچہ صوبائی حکومت نے پورس کے ہاتھیوں کی طرح خود اپنی صفوں کو تہہ و بالا کرنے کا پھر یرا لہرایا ہے اساتذہ کی تنظیمیں اندرون خانہ خوشی اور مسرت کا اظہار کررہی ہیں کہ مانیٹرنگ سے جان چھوٹنے والی ہے اخبارات میں جو خبریں آرہی ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں محکمہ تعلیم کے انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ نے حکومت کی نیک نامی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا کچھ مخصوص حلقے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے اس یونٹ کے ملازمین کی مستقلی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اب یہ پی ٹی آئی کی قیادت کا امتحان ہے وہ ہمدردوں کی بات مانتی ہے یا دشمنوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے