داد بیداد۔۔۔۔سرکاری ریسٹ ہاؤں۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

سرکاری ریسٹ ہاؤں
خیبر پختونخوا کی حکومت نے کارگردگی کی جانچ کا طریقہ جاری کیا ہے جسے انگریزی میں پرفارمنس ایولے لوے شن سسٹم (PES)کا نام دیا گیا ہے اگلے 6مہینوں میں اس طریقے سے حکومت کے مختلف شعبوں کی کارگردگی کا جائزہ لیا جائے گا میں نے صوبے کے مشہور سرکاری ریسٹ ہاؤسز میں قیام کا تجربہ کیا ہے سندھ، پنجاب،ازاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے کسی بھی سرکاری ریسٹ ہاؤس سے ان کا موازنہ کرتا ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے سول انتظامیہ کی نگرانی میں دی گئی ان ریسٹ ہاؤسز کا موازنہ پاک آرمی کے کسی افیسر مِس سے کرتا ہوں تو مارے شرم کے میرا سر اتنا جھک جاتا ہے کہ سرنگوں ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سرکاری افیسر یہاں قیام کی جگہ کسی ہوٹل میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں یہ ریسٹ ہاؤسز جس محکمے کے پاس ہیں اس محکمے کا کوئی افیسر یہاں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا صوبائی حکومت کے پرفارمنس ایوے لوے شن سسٹم کی اچھی بات یہ ہے کہ اس کام کی نگرانی کے لئے صوبائی چیف سکرٹری اعظم خان کو چنا گیا ہے جن کی شہرت یہ ہے کہ وہ محنت کرتے ہیں، بے رحم احتساب پر یقین رکھتے ہیں اور صوبے کے چپے چپے سے واقف ہیں چند سال پہلے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے کنکرنٹ لسٹ کو ختم کردیا گیا 18دیگر محکموں کے ساتھ سیاحت کا محکمہ بھی صوبائی حکومت کو ملا سیاحتی شعبے کے ہوٹل بھی صوبائی حکومت کو ملنے تھے مگر نہ ملے اب تک جھگڑا چل رہا ہے اس جھگڑے کی بنیاد یہ ہے کہ پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی انتظامیہ نے خیبرپختونخوا حکومت کو چیلنج کیا ہے تم اپنے ریسٹ ہاؤسز ٹھیک طریقے سے چلا کر دکھاؤ، ہم اپنے ہوٹل موٹل سب تمہاری تحویل میں دیندینگے حال یہ ہے کہ سی اینڈ ڈبلیو کا ایکسین یا سپرٹننڈنگ انجینئر، پناکوٹ، کالام، گرم چشمہ چترال یا کالاش ویلی کا دورہ کرتا ہے تو وہ اپنے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرنے کی جگہ ہوٹل میں قیام کرتا ہے ہر بار اس کو بتایا جاتا ہے کہ ریسٹ ہاؤس میں مرمت کا کام چل رہا ہے مگر گذشتہ 20سالوں سے مرمت کا کوئی کام نہیں ہوا مجھے یاد ہے 1966ء میں گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ نے چترال کا دورہ کیا تو انہیں سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا تھا سکول کے بچوں نے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات کی۔ساتویں جماعت کے بچے سے انہوں نے سوال کیا تھا کہ چترال کی کونسی چیز مشہور ہے بچے کا جواب تھا تریچمیر کی چوٹی، واپس سکول آنے کے بعد استاد میر فیاض خان نے پوچھا اگر وہ کہتا کہ کیوں؟ تو تم کیا جواب دیتے؟ بچے نے برجستہ کہامیں کہتا آپ کی پگڑی کی طرح سفید بھی ہے اور بلند بھی۔ اس پر استاد نے بچے کو نواب کالا باغ کے انعام سے دگنا انعام دیدیا چاہیے تو یہ تھا کہ 2017ء میں سرکاری ریسٹ ہاؤس کا معیار اتنا بلند ہوتا کہ غیر ملکی سفیروں اور غیر ملکی سربراہان مملکت کو بھی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا جاتا مگر زوال کی حد یہ ہے کہ آج سی اینڈ ڈبلیو کا ایکسین یا ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی اپنے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا سرکاری حکام اپنے دور پار کے رشتہ داروں اور بِن بلائے مہمانوں کو سرکاری ریسٹ ہاؤس کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اُن پر جو بیتی سو بیتی قیام پاکستان سے پہلے سوات، دیر اور چترال میں انگریزوں کے ڈاک بنگلے تھے جن میں افیسر ٹھہرتے تھے ان میں سے 13ڈاک بنگلے برباد ہوچکے ہیں ”آہو بچہ کرد و روباہ ارام گرفت“ کا منظر پیش کرتے ہیں کوئی والی وارث نہیں بعض مقامات پر ڈاک بنگلے پولیس چوکیوں اور تھانوں میں تبدیل کئے گئے ہیں اس بہانے سے ان کو ویرانی اور کھنڈر ہونے سے بچایا گیا ہے صوبائی حکومت کے پرفارمنس ایو ے لوے شن سسٹم کی وجہ سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ صوبے کے طول و عرض میں قائم ریسٹ ہاؤسوں کا ایک سروے کرکے صورت حال کا جائزہ لیا جائیگا ان میں سے بعض کی بربادی اور ویرانی کے ذمہ داروں کا تعین ہوگا جو ریسٹ ہاؤس اپنی دیواروں اور دروازوں کے ساتھ کسی نہ کسی حال میں سلامت ہیں ان کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام کیا جائے گا اس سلسلے میں گلگت بلتستان کی حکومت کے تجربے سے بھی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے نیز”گر تو بُرا نہ مانے“ تو پاک آرمی کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے چترال میں کالاش ویلی، بمبوریت، بریر، رمبور، اور وادی انجگان کے گرم چشمہ، تحصیل مستوج کے ریشن، سنوغر، مستوج وغیرہ کے ریسٹ ہاؤس آرمی کو حوالہ کئے جائیں تو کوئی ہرج نہیں ہوگا۔ والی، وارث کے بغیر کھنڈرات میں تبدیل ہونے والی عمارتیں دوبارہ کارآمد ہوسکیں گی۔ دیر میں پناکوٹ کا ریسٹ ہاؤس تاریخی اہمیت کا حامل تھا اس کی بحالی کے لئے بھی آرمی کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اُمید ہے اگلے چھ مہینوں میں نئے سسٹم کے خوشگوار نتائج برآمد ہونگے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک