دادبیداد۔۔دارالحکومت کا تحفظ۔۔ادب اور ماحولیات۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

شاہ لطیف یونیورسٹی خیر پور میں سیمینار کے لئے جاتے ہوئے چترال اور گلگت بلتستان کے ادیبوں، شاعروں کا قافلہ درالحکومت اترا محمد حسن حسرت کو اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنا تھا۔ وہ نہ مل سکا۔ ایک ہفتہ بعد واپسی پر وہی صورت حال تھی۔ آدھا گھنٹے کا راستہ 4گھنٹوں میں طے کر کے اپنوں کی خیریت دریافت کی۔ جو گھروں کے اندر 2ہفتوں سے محبوس تھے۔ اور وفاقی دارالحکومت میں یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ سیاسی مخالف جلوس نکالے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ جولائی2007میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد والوں نے حکومت کو چیلنج کیا۔ انتظامیہ بے بس ہوگئی۔ فوج طلب کر لی گئی۔ اسلام آباد کے شہریوں نے لال مسجد کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کیا۔ آپریشن ہوا تو انہی لوگوں نے لال مسجد والوں کے خلاف آپریشن کی مذمت کی۔ اب تک مذمت کی جارہی ہے۔ شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری نے کینڈا سے آکر دو بار اسلام آباد پر بڑے بڑے حملے کئے۔ اب کی بار علامہ خادم حسین رضوی نے وفاقی دارالحکومت پر حملہ کیا تھا۔ دو ہفتوں تک اسلام آباد کے لوگ حالتِ جنگ میں رہے۔ محرم الحرام کے دوران مذہب کے نام پر سیکورٹی کے مسائل ہمارے روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ربیع الاول کے مہینے میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ واٰلہ ِوسلّم کے پاک نام پر سیکورٹی کا نازک مسئلہ ہر سال کھڑا کیا جاتا ہے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے نہیں، ہندوؤں اور سکھوں یا احمدیوں کی طرف سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے راسخ العقیدہ فرقوں کی طرف سے یہ جنگیں ایک دوسرے کے خلاف لڑی جاتی ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی جنگیں، بنگلہ دیش اور بھارت میں نہیں ہوتیں، سعودی عرب اور ایران میں نہیں ہوتیں،شام، عراق اور افغانستان میں نہیں ہوتیں، صرف پاکستان میں ہوتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بدقسمت ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اس کا نام اسلامی جمہوریہ ہے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی ملک سے دو چار ارب کا چندہ جمع کرلے تو وہ اسلام آباد پر حملہ کرتا ہے۔ 40یا 50کروڑ روپے خرچ کرتا ہے۔ باقی اللہ پاک کا دیا ہوا مال سمجھ کر گھر لے جاتاہے۔ ڈھاکہ، نئی دہلی اور کابل پر حملے کے لئے اس طرح کی فنڈنگ کوئی نہیں کرتا۔ دو دنوں سے اخبارات میں وہی خبریں آرہی ہیں۔ جو 7جولائی2007کو لال مسجد والے ہنگامے کے دن اخبارات کی زینت بن گئی تھیں۔ اسلام آباد سے ڈھائی سو کلو میٹر دور سوات میں جلسہ ہوا۔ جلسہ کے شرکاء نے اسلام آباد پر حملہ کرنے والوں کے حق میں نعرے لگائے۔ تقریریں کیں اور حکومت کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ جولائی 2007میں ایسا ہی ہوا تھا۔ لال مسجد میں ہنگامہ آرائی جاری تھی سوات میں مولانافضل اللہ نے جلسہ کر کے حکومت کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ چنانچہ 2009میں حکومت کو سوات اور دیر میں فوجی آپریشن کے ذریعے بغاوت پر قابو پانے کی ضرورت پیش آئی۔ پھر ایسا ہوا کہ عین آپریشن کے دوران اپنی 1200گاڑیوں اور8000 ساتھیوں کے ہمراہ مولانا فضل اللہ نے سوات سے دیر اور دیر سے باجوڑ کا راستہ عبور کر کے افغانستان میں پناہ لے لی۔ وہاں ان کا ہیڈ کورٹر اب تک قائم ہے۔ اس طرح کراچی اور لاہور میں بھی حملہ آوروں کے حق میں دھرنا دیا گیا ہے۔ انگریزی میں ایسے کاموں کو”سیکورٹی لیپس”کہا جاتا ہے۔ ارد و میں اس کو “انتظامیہ کی ناکامی”کا نام دیا جانا چائیے۔ انتظامیہ قربانی کا بکرا ہے۔ بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے میں ملزموں اور مجرموں کو چھوڑ کر ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو سزا سنائی گئی۔ غالب نے کہا تھا “ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی”یہاں سارے شہر نے دستانے پہنے ہوئے ہیں۔ بہرے کو آواز دی جارہی ہے، لنگڑے کو دوڑایا جارہا ہے اور اندھے کے ہاتھ میں چراغ ہے۔ جب کہ گونگے کو گواہی کے لئے بلایا جارہا ہے۔”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی”یہ ایک دن کا یا ایک سال کا واقعہ نہیں۔ اسلام آباد پر حملہ کرنے والوں نے اس سال تین خطرناک کام کئے۔ پہلا کام یہ ہوا کہ بڑا پیمانے پر توہین رسالت کا جرم ان سے سرزدہوا۔ عتیق شاہ فیض آباد کا بزرگ شہری ہے اس نے اکیلے ہزاروں اوراق سڑکوں، گلیوں اور نالیوں سے چن کر جمع کئے۔ جن پر لبیک یا رسول اللہ کے مقدس اور مبارک کلمے درج ہیں ان میں کپڑوں پر تحریریں بھی ہیں۔ انکی بے حرمتی جان بوجھ کر کی جارہی ہے۔ دوسرا خطرناک کام یہ ہے کہ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبار ک نام پر ہجوم اکھٹا کر کے سٹیج سے طاقت ور لاؤڈ سپیکروں پر ننگی گالیاں نشر کی جارہی تھیں۔ ایسی گالیاں جنہیں گنہگار سے گنہگار شہری بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اپنی زبان پر نہیں لایا جاسکتا۔ تیسرا خطرناک کا م یہ ہوا کہ حملہ آور اسلحہ لے کر آئے۔ ایک بڑا خطرہ آگے آنے والا ہے۔ اگر وطن عزیز میں سعودی عرب، چین اور بھارت کی طرح سخت قوانین نافذ نہیں کئے گئے تو کل کسی اور کو دشمن کی طرف سے چندہ مل جائے گا۔ کوئی اور بھی اٹھ کر وفاقی دارالحکومت پر حملہ کرے گا۔ وفاقی دارالحکومت کا تحفظ پاکستان کے تحفظ کا ٹیسٹ کیس ہے، اسلام آباد پر اس طرح حملوں کا پورا کھیل باہر سے کنٹرول ہورہا ہے۔ یہ کام ہمارا دشمن کر رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کو پکڑا جائے اور وفاقی دارالحکومت پر حملہ کرنے والوں کا راستہ آئندہ کے لئے بند کیاجائے۔

ادب اور ماحولیات
ادب اور ماحولیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انشا پردازی ‘ناول نگاری، داستان گوئی اور شاعری میں محاکات کو ماحولیات ہی کہا جائے گا۔ اورکیا نام دیا جائے گا! مگر لطف کی بات یہ ہے کہ شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور سندھ کے شعبہ اردو نے اس موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام اور فروری2017میں اعلامیہ جاری ہوا تو سب نے حیرت کا اظہار کیا”ادب اور ماحولیات”کیا موضوع ہے! نومبر کے دوسرے ہفتے میں یہ کانفرنس پاکستان میں ہوئی جب کہ تیسرے ہفتے میں جرمنی کے شہربون نے اسی موضوع پر کانفرنس کی میزبانی کی۔ یوں عقدہ کھلا کہ یہ دماغ کا خلل نہیں۔ عالمی توجہ کا متقاضی عنوان ہے۔ کانفرنس میں 23ممالک کے مندوبین آئے اور دنیا کی17زبانوں کے ادب میں ماحولیات کے موضوع کا جائزہ لیا گیا۔
روایت سے ہٹ کر کانفرنس کی افتتاحی نشست میں کسی بھی سرکاری عہدیدار کو بلانے کی جگہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو بلایا گیا۔ شاہ لطیف یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر پروین شاہ، فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ آرٹس کے ڈین ڈاکٹر یوسف خشک اور شعبہ اردو کی چیئرپرسن ڈاکٹر صوفیہ خشک نے کانفرنس کے پس منظر اور اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ ڈکٹر یوسف خشک نے یاد دلایا کہ ماحوالیاتی تنقید ادب کا نیا شعبہ ہے۔ اس شعبے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ معاصر ادب کے اندر ماحول کو کتنا وقت اور کتنی جگہ حاصل ہے۔ شاہ لطیف نے آج سے تین سو سال پہلے مگر مچھ سے خطاب کرکے ایک بات کہی تھی “اے مگرمچھ! تو جس طرح سب کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے یہ نہ بھولو ان سب کے خاتمے میں تیرا خاتمہ بھی مضمر ہے”آج انسان نے نباتات، حیوانات، چرند، پرند اور مچھلیوں کی نسل کو ختم کیا۔ ہواؤں اور دریاؤں کو آلودہ کیا، اس طرح مگرمچھ کی طرح اپنے خاتمے کا سامان اپنے ہاتھوں سے کرلیا ہے اور یہی ادب کا موضوع ہے اسی پر اس کانفرنس میں بحث ہورہی ہے کامرس اینڈ انڈ سٹری کے شعبے سے تعلق رکھنے والے دانشور عامر غوری نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی نے دنیا کو اس درجہ متاثر کیا ہے کہ آج انسان نے زمین اور آسمان کے اس مدار سے باہر نکل کر مریخ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ” یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں “امریکہ کی تین ریاستوں میں اس منصوبے پر کام ہورہا ہے۔ ٹیکساس میں ایلون مسک (Elon Musk)نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ٹیسلا(Tesla) سپے سکس(Spasex)اور ہائپر لوپ(Hyper Loop)نامی کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں۔ 2020میں پہلا خلائی سٹیشن قائم ہوگا۔2026تک انسانوں کو تعمیراتی سامان کے ساتھ مریخ پر اتارنے والے جہاز باقاعدہ سروس شروع کریں گے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا “کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد “برطانیہ سے آنے والے مندوب یشیب تمنانے ورڈزورتھ، محمد ابراہیم کھوکھر نے شاہ لطیف، فرحت جبیں ورک نے منیر نیازی،ایران سے آنے والی مندوب ڈاکٹر وفا یزداں منش نے فارسی ادب، مصر سے آنے والے دانشور ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم السید نے مصری ماحول اہرام اور نیل کے ادب پر اثرات، جرمنی کے ڈاکٹر تھامس سٹیمر نے جرمن ادب اور ماحول، سویڈن کے ڈاکٹر ورنر ویسلر نے عالمی ادب میں Loop)نامی کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں۔ 2020میں پہلا خلائی سٹیشن قائم ہوگا۔2026تک انسانوں کو تعمیراتی سامان کے ساتھ مریخ پر اتارنے والے جہاز باقاعدہ سروس شروع کریں گے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا “کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد “برطانیہ سے آنے والے مندوب یشیب تمنانے ورڈزورتھ، محمد ابراہیم کھوکھر نے شاہ لطیف، فرحت جبیں ورک نے منیر نیازی،ایران سے آنے والی مندوب ڈاکٹر وفا یزداں منش نے فارسی ادب، مصر سے آنے والے دانشور ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم السید نے مصری ماحول اہرام اور نیل کے ادب پر اثرات، جرمنی کے ڈاکٹر تھامس سٹیمر نے جرمن ادب اور ماحول، سویڈن کے ڈاکٹر ورنر ویسلر نے عالمی ادب میں ماحولیاتی خطرات کے تنقیدی جائزے اور ترکی سے آئی ہوئی ڈاکٹر آرزو سورن نے یشارکمال کے ناول”سمندر ناراض ہوگیا”کے حوالے سے مقالات پیش کئے۔ اردو ادب کی نامور شخصیت ستیہ پال آنند واشنگٹن سے اور مشہور براڈ کاسٹر، ادیب اور دانشور رضا علی عابدی لندن سے تشریف لائے تھے۔ رضا علی عابدی کو لفظوں کا جادوگر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے عالمی حدت، موسمیاتی تغیرات،اوزون میں سوراخ اور دیگر عوامل کے ساتھ کوئلہ، ڈیزل، پٹرول اور دھواں چھوڑنے والے آلودہ کار ایجادات کا ذکر چھیڑتے ہوئے کہا کہ” اب ایجاد کو ایک بار پھر ضرورت کی ماں ہونے کا ثبوت دینا چائیے” کوئی ایسی مشین آنی چائیے جو دھوئیں کے مرغولوں سے جہانِ آب وگِل کو نجات دے۔ بیشک یہ ایک خواب تو ہے مگر” یاد رہے دیوانے کا نہیں “۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو کے عتیق احمد جیلانی، کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر روف پاریکھ اور پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر وحید الرحمٰن نے خوب صورت مقالے پیش کئے۔ خیبر پختونخواہ سے ایبٹ آباد کے عامر سہیل صوابی یونیورسٹی کے نقیب احمد جان، یونیورسٹی آف چترال کے ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری، سرحد یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد امتیا ز، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے عبداللہ جان عابد مندوبین میں شامل تھے۔ سکردو بلتستان سے ڈاکٹر عظمی سلیم اور محمد حسن حسرت نے کانفرنس میں دلچسپ مقالے پیش کئے۔ چترال کے مندوب نے کھوار ادب کی قدیم صنف اشور جان کے ایک بند کا ترجمہ پیش کیا جو بے حد پسند کیا گیا۔ترجمہ یہ ہے” میری جاں! میرے ہمدم! کاش میں کسی راہ گزر پر ایک چشمہ ہوتا، میری محبوبہ چشمے پر آتی، اپنی انگلی سے چشمے کو چُھو کر دیکھتی کہ چشمہ ٹھنڈا ہے یا نہیں۔ پھر کہتی کہ چشمہ بہت ٹھنڈا ہے اور اپنے شیریں لب بھر بھر کر چشمے کا پانی پی لیتی، میری جا ں! میرے ہمدم! اس وقت میرے سارے ارمان پورے ہوتے اور مجھے موت کا غم بھی نہ ہوتا “اس طرح اختر شیرانی کی نظم “او دیس سے آنے والے بتا “اور مجید امجد کی نظم “توسیع ِ شہر”کا بھی خوب چرچا رہا۔