داد بیدا د۔۔ جنرل صاحب کا اعتراف۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی بہت ساری خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ سچ بولتے ہیں بے دھڑک بولتے ہیں اور لگی لپٹی رکھے بغیر بولتے ہیں یہ خوبی بہت کم لیڈروں میں ہوتی ہے جنرل صاحب کا جوتا زہ بیاں اخبارات کی زینت بنا ہے اس میں بہت بڑی سچائی بیان کی گئی ہے یہ پاکستا نی عدلیہ کی تاریخ میں رقم کی گئی سب سے بڑی سچائی ہے ہماری 70 سالہ تاریخ اس پر گواہ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ کوئی بھی اس کا اعتراف نہیں کرتا اپنے بیان میں سابق آرمی چیف اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ 2006 ؁ء میں چیف جسٹس افتخار چوہد ری کے ساتھ معاملات طے پاگئے تھے چیف جسٹس نے وعدہ کیا تھا کہ سٹیل ملز نجکاری کیس میں فیصلہ حکومت کے حق میں آئے گا مگروہ حکومت کے خلاف آیا سٹیل ملز کی نجکاری روک دی گئی سٹیل ملز کا سالانہ منافع 10 ارب روپے تھا اس کی مالیت چار کھرب روپے سے زیادہ بنتی تھی اور یہ ملز 10 ارب روپے میں ایک من پسند پارٹی کو فروخت کی جارہی تھی فروخت کو قانونی تحفظ دینے کے لئے چیف جسٹس کے ساتھ معاملات طے پاگئے تھے عمران خان کی زبان میں بات کی جائے تو میچ فکس تھا اخبارات میں جنرل صاحب کے تازہ بیان کو انکشاف کا نام دیا گیا ہے حالانکہ یہ انکشاف نہیں اعتراف کا درجہ رکھتا ہے انکشاف اس لئے نہیں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں مولوی تمیز الدین خان کے خلاف آنے والا فیصلہ بھی فکس تھا بیگم نصرت بھٹو کے خلاف آنیوالا فیصلہ بھی فکس تھا خود ذولفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قتل کیس کا فیصلہ بھی فکس تھا مقتدر قو تیں جج کو گھربلا کر کہتی ہیں یہ 10 مقدمات ہیں ان کے فیصلے ہمارے حق میں آنے چاہیں جج کہتا ہے ”نو پرا بلم“ اور یہاں سے ہمارا پرا بلم شروع ہوتا ہے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے معاملے میں جنرل پرویز مشرف کو پکا یقین تھا کہ طویل ترین مد ت کے لئے چیف جسٹس رہیگا اور ہماری مرضی کے سارے فیصلے یہی شخص دے گا جنرل صاحب کے معاملے میں ایسا واقعہ بھی رونما ہوا کہ سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے کوئی شخص انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا الیکشن کمیشن کے بااختیار جج نے جنرل صاحب کو وردی میں ہوتے ہوئے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی اس سے پہلے عدالت عظمیٰ نے جنرل صاحب کو تین سال حکومت کر نے آئیں میں ترمیم کر نے اور پی سی او جاری کر نے کا اختیار دید یا تھا عدالت عظمیٰ نے ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کے جنگلی اصول کو نظر یہ ضرورت کے تحت قانون کا درجہ دید یا اس لئے کسی من چلے نے کہا تھا کہ تم لوگ اعلیٰ عدالتوں کو عظمیٰ اور عالیہ جیسی لڑکیوں کے نام دید یتے ہو اور پھر مردانہ فیصلوں کی توقع رکھتے ہو یہ تمہا ری بھول ہے سادہ لوحی اور حماقت ہے دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر جرمن طیاروں نے لندن پر بمباری کی ونٹسن چرچل بر طانیہ کے وزیر اعظم تھے انہوں نے چیف جسٹس کی خدمت میں حاضری دی پھر ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا چرچل نے کہا ”میں نے چیف جسٹس سے پوچھا عدالتیں کیسے فیصلے دیتی ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا میرٹ پر فیصلے دیتی ہیں اگر چیف جسٹس کی بات درست ہے تو جرمن ہمارا با ل بیکا نہیں کرسکتے، ہٹلر ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتا جس ملک میں انصاف ہوتا ہو اُس ملک کو دشمن شکست نہیں دے سکتا“ چرچل کاقول سچ ثابت ہوا اتحادی جیت گئے جر منی کو شکست ہوئی اسلامی تاریخ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول نقل کیا گیا ہے آپ نے فرمایا”کفر کے ساتھ ملک برقرار رہ سکتا ہے ظلم کے ساتھ نہیں رہ سکتا یعنی عدالتی طریقہ کار کے اندر ظلم داخل ہو جائے تو یہ کفر سے بڑا گنا ہ ہے جنرل صاحب نے اپنے تازہ بیان میں پاکستانی عدلیہ کا سب سے بڑ ا سچ اگل دیا ہے اس اعتراف کے لئے سابق آرمی چیف اور سابق صدر کو داد دینی چاہیے چیف جسٹس افتخار چوہدری سے یہ شکو ہ بجا ہے کہ دیگر ججوں کی طرح اپنا وعدہ پورا کر تے تو کتنا ہی اچھا ہوتا