اس سال جماعت نہم اور دہم کے بورڈ کے سالانہ نتائیج کیا آئے کہ ایک ہنگامہ برپا ہوا۔سرکاری سکولوں کے بچوں نے کوئی پوزیشن ہی نہیں لی۔پرائیویٹ سکول بازی لے گئے۔نمبر سکورینگ حیران کن رہی۔پرائیویٹ سکولوں کی کارکردگی قابل ستائش اور سرکاری سکولوں پر سوالیہ نشان رہا۔170سکولوں کے پرنسپلوں کو خراب کارکردگی پر نوٹس جاری کی گئی۔لیکن نتائج پر سنجیدگی سے غور کرنے والے ماہرین تعلیم اس بات پر حیران ہیں کہ ایک بچہ 100/100نمبر کس طرح لے سکتا ہے۔1050نمبروں میں سے 1048اور 1100میں سے1098کس طرح لے سکتا ہے۔کس طرح وہ ایک کاما،سپلینگ،جملہ،لفظ،فارمولے کو غلط نہیں کیا ہے۔اس کے اردو،انگریزی کے پرچے کس طرح کتنے درست،مکمل اور غلطیوں سے پاک رہے ہیں۔اگر ان کے اردو اور انگریزی کے اساتذہ کو یہ پرچے تھمادئیے جائے تو کیا ان کے اساتذہ100/100نمبر لے سکتے تھے۔یہ سب حیران کن حد تک نتائج ہیں جن پر سوچا جاسکتا ہے۔اگر نقل بھی ہورہی ہے،اگر امتحانی حالوں میں کرپشن ہی ہورہی ہے تب بھی ایسے نتائج کسی بھی صورت ممکن نہیں ہیں۔یہ نمبر سکورینگ ہے اور ایک لحاظ سے آنکھوں کی دھول ہے۔وہ بچہ جس نے اتنے نمبر لئے اس کے پاس نہ اتنا کنٹنٹContantنالج ہوسکتا ہے نہ اتنا بیک گراونڈ نالج ہوسکتا ہے۔یہ صرف سکورینگ ہے جس کے وجوہات ہیں۔یہ تعلیمی بورڈوں کا آپس میں مقابلہ ہے،اداروں کا مقابلہ ہے انفرادی مقابلے ہیں،پھر کالجوں میں داخلے کا کوئی سسٹم نہیں صرف نمبر،صرف نمبر سکورینگ ہے کوئی ٹیسٹ وغیرہ نہیں اس لئے ایسا ہوتا ہے۔امتحانی ہالوں میں سب کچھ ہوتا ہے۔ان سب پر ماہرین تعلیم کوبیٹھا کر عرق ریزی سے غور کرنا ہوگا۔سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے درمیان یہ کشمکش پُرانی ہے معیار کی بات،محنت کی بات،سسٹم کی بات پرانی ہے۔اس کی تہہ تک نہیں پہنچا جاتا۔سرکاری اداروں میں کئی مسائل ہیں ان پر نہیں سوچا جاتا۔پرائمری سطح پر مناسب تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی،عمارتوں کے مسائل،جزا وسزا کا نہ ہونا جو سب سے بنیادی چیز ہے کارکردگی کا احتساب نہ ہونا،بچوں کی زیادتی وقت کی کمی اور اساتذہ کے پاس وقت نہ ہونا بنیادی مسائل ہیں۔پھر اساتذہ کی بنیادی مہارتوں پہ لکھائی،عبارت خوانی وغیرہ پر توجہ مرکوز نہ کرنا بنیادی مسائل ہیں۔پھر اداروں میں معیار کا تصور نہ ہونا،فیل پاس کا تصور نہ ہونا،جسمانی سزا پر پابندی ایسے نقاص ہیں جو تعلیمی عمل کو بہت کمزور کرتے ہیں۔اُن کو دور کرنے کی مکمل کوشش نہیں ہوتی۔اداروں کے اندر سسٹم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔جس میں ہر ہر عمل کی مانیٹرینگ ہو۔پھر امتحانات میں شفافیت ختم ہوچکی ہے۔اساتذہ کی غفلت کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کمزوریاں چند دنوں میں ختم ہوسکتی ہیں۔ایسا نہیں ہے۔معیار تعلیم اور مقدارتعلیم اکھٹے نہیں ہوسکتے۔معیار مقدار کے اندر ہوتا ہے۔سرکاری سکولوں کے سارے بچے معیاری نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ان کے داخلے وغیرہ کے لئے کوئی میرٹ نہیں ہے دوسرے ادارے میرٹ میں کمپرومائز نہیں کرتے۔اگر کوئی بچہ معیار سے گرے تو سب کو نکال باہر کرتے ہیں اب سرکاری اداروں میں تبدیلی آرہی ہے اساتذہ کی کمی ختم ہورہی ہے حکومت نے مانیٹرنگ کا سسٹم متعارف کراکر اچھا کیا ہے۔سکول کے اندر سہولیات آرہی ہیں۔تعلیمی عمل موثر ہورہا ہے۔بس سسٹم کو مضبوط کرنا ہے اداروں کے سربراہوں کو کردار ادا کرنا ہے۔محکمے کو اپنے نظام میں جھول نہ آنے دینا ہے۔اساتذہ کی محنت،قابلیت،کام اور کارکردگی پر نظر رکھنی ہے کسی کی حوصلہ افزائی اور کسی کو تنبیہ کرنا ہے سکول کے اندر بچوں کی تعلیمی عمل کی کڑی نگرانی کرنی ہے تب جاکے اس کے نتائیج آنے شروع ہونگے۔میری نظر میں نمبر سکورنگ بچوں کے تعلیمی عمل کا کوئی معیار نہیں ہے۔کیونکہ تعلیم کے دوبڑے مقاصد ہیں۔ایک(رویوں میں تبدیلی)Behaviour changeدوسرے (مہارتیں) Skill developmentہے کیا صرف نمبر سکورینگ یہ مقاصد حاصل ہورہے ہیں۔کیا ہمارے نوجوان ایک مہذب،بااخلاق،محترم شہری بن کر معاشعرے کا حصہ بن رہے ہیں۔کیا ہمارے نوجوان میٹرک میں ایک ہزار نمبر لے کر واقعی ان مضامین پر عبور حاصل کررہے ہیں،یا رٹ لگاکر تین تین سال تیاری کرکے امتحان پاس کررہے ہیں۔سرکاری اداروں پر یہ دباؤ بالکل درست نہیں ہے قوم کو درست معنوں میں تعلیم یافتہ بنانے میں ان کا کلیدی کردارہے۔ان کا تعلق ان بچوں سے ہے جو معاشرے میں ہرلحاظ سے محروم ومقہور ہیں۔ان کی جیب میں کاپی خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ان کا جھونپڑی نماگھر ہر سہولت سے محروم ہے۔ان کے مزدور ان پڑھ ابو کے پاس وقت ہی کہاں ہے۔وہ بچوں کو محنت ومزدوری کرکے کھلانے کے غم میں ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اس کے مقابلے میں غیر سرکاری سکول کا بچہ صرف پڑھتا ہے وہ اساتذہ کی محنت کے بغیر ہی پچاس فیصد خود پڑھتا ہے،لوگ ”تعلیم مفت“ کا نعرہ الاپتے ہیں ان غریب بچوں کی ذہن سازی کا کٹھن مرحلہ کس کو درپیش ہے۔تعلیم کے لئے تعلیمی ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ذہن سازی کرنی ہوتی ہے۔اس لئے نمبر سکورنگ کی توقع سرکاری اداروں سے نہ کی جائے ہاں حکومت کے سارے اقدامات جو قابل صد افرین ہیں مکمل ہوجائیں تب ممکن ہے۔سرکاری اداروں کے اندر بالکل تبدیلیاں آرہی ہیں،سرکاری اداروں کے اساتذہ کو سرتوڑ محنت کرنی ہوگی۔یہ نمبر سکورنگ ایک خوفناک دوڑ ہے جس کی وجہ سے طبقاتی تعلیم بڑھتی جارہی ہے۔غریب محروم ہوتا جارہا ہے۔تعلیم میں یکسانیت ہو نصاب میں یکسانیت ہو،غیر سرکاری اداروں کو حکومتی پالیسیوں کے پابند کئے جائیں۔امتحانات کا نظام شفاف ہوں تب جاکے معیار کا پتہ چلے گا۔حکومت کو چاہیئے کہ سرکاری اداروں سے مایوس نہ ہو۔یہ وہ ادارے ہیں جو قوم کی بنیاد ہیں۔انہی اداروں سے قوم کے کارآمد افراد میدان میں آتے ہیں اگر معاشرے کی اونچ نیچ پاٹ دی جائے تب پتہ چلے گا کہ وہ بچہ جو کسی غیر سرکاری سکول میں ہزار نمبر لیتا ہے وہ سرکاری سکول میں بھی ہزار نمبر ہی لے گا۔بہترین کردار اس کا اضافی ہوگا۔
تازہ ترین
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات
- ہومنوجوان عالم دین قاضی ولی الرحمان انصاری کا اعزاز
- ہومریجنل پولیس آفیسر ملاکنڈ کا دورہ لوئر چترال