حالیہ خبیر پختونخوا اور سابقہ NWFP میں صحت کے نظام پر ویسے تو کئی دفعہ تجربات ہوتے رہے اور ان تجر بات سے کوئی خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہو سکے یہاں کے عوام مستفید ہونا تو دور کی بات بلکہ ان کا الٹا اثر برداشت کر نا پڑا مثلا صوبہ کے طول و عرض پر 1970 ء کی دھائی میں RHU’s کا جال بچھا یا گیا یعنی ”کہ بنیادی صحت مراکز“ اُس زمانے میں یہ سو چا گیا کہ لوگوں کی بنیادی صحت اور حفظان صحت کو بہتر بنایا جائے گا آگے چلکر وہ ہر قسم کی بیماریوں سے نجات حاصل کرینگے۔
اُن’s BHU کے ساتھ یہ ظلم تقریبا 0 4 سال تک ہوتا رہا کہ وہاں سٹاف کی تعینا تی نہ ہوسکی ڈاکٹر تو دور کی بات وہاں LHV اور میڈیکل ٹیکنیشن بھی تعینات نہ ہوسکے اِس سے لوگوں کی بنیادی صحت کے بہتر ہونے کا سہا نہ خواب پورا نہ ہوسکا اس کے نتائج یہ نکلے کہ’s BHU بھوت’s BHU کا منظر دینے لگے سیاسی مداخلت کے بل بوتے پر یہاں کا سٹاف اپنی من پسند جگہوں کو ترجیح دیتے رہے نتیجتاً ایسے BHU’s جو مرکزی علاقوں کے نزدیگ تھے وہاں دو دو LHVs اور تین تین میڈیکل ٹیکنیشن تعینات رہتے اور دور دراز کے’s BHU میں وارڈ اڑدلی اور چوکیدار نے حفظان صحت کے خدمات کے بیڑا اُٹھا نا شروع کیا آخر کسی کو یہ خیا ل آیا کہ کیوں نہ ان’s BHUکو P.P.P یعنی Public Private Partnarship میں دیا جائے۔
2000 ء کی دہائی میں پنجاب کا ایک ماڈل اُٹھا کر NWFP میں رکھا گیا اور تمام فنڈ یک لکیر ی بجٹ کے طور پر PPHI کے حوالے کیا گیا اُس دور میں کچھ بہتری کی کرن نظر آنے لگی اور عوام کو سہولیات اُن کے دہلیز پر ملنے لگیں عمارات کی مرمت اور تز ئین و آرائش کی کافی مثبت کوشیں کئی گئی BHUs میں پانی بجلی اور گر ما ئش کا قد رنے بہتر انتظام دیکھنے میں آیا۔
یکدم 2015-16 ء کے دوران یہ نظام بھی لپیٹ لیا گیا۔ اس لئے کہ حکومتوں کو کچھ نئے تجر بات بھی کر نے ہوتے ہیں اور بہتر ی بھی لا نی ہو تی ہے اب یہ BHUs جہاں ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر چل رہے ہیں ڈاکٹر اور سٹاف موجود مگر سہولیات اور ادویات ناپید ، مرمت اور غیر تنخواہی بجٹ اونٹ کے منہ میں زیر ہ کے برابر۔
اسی پر تُک یہ ہے کہ ان BHU’s کو بجٹ کا فراہم کر نے کی ذمہ داری ضلعی حکومتوں کے سپرد کیا گیا جو کہ خود کسی حد تک بجٹ سے محروم رکھے گئے ہیں اس کا نتیجہ نہ نکلا ہے کہ اکثر مریض جو دوائی اور Vaccine کے لئے BHU’s میں آیا کرتے تھے وہ بھی کم ہو تے گئے.
اس کے بعد لے لیتے ہیں RHCs کے نظام کو۔۔۔۔۔ وہRHC’s جو ضلعی ہیڈ کوو اٹریا شہر ی علاقوں کے نزدیک ہیں وہاں کچھ گز ارہ ہو رہا ہے کیونکہ ڈاکٹر اور دیگر عملہ اپنی مرضی سے تعینات رہتا ہے مگر وہ RHCs جو دور دراز ہیں وہاں سٹاف کو مانیٹرنگ کے نئے جا ل نے بھی ڈیوٹی دینے کا پا بند نہ بنا سکا۔دور راز کے RHCs میں زنا نہ ڈاکٹر نہیں ہیں یا اُن پوسٹوں پر تعینات ہو کر من مانے جگہوں پر ڈیو ٹیاں دے رہی ہیں جہاں اُ ن کی خدمات کی چندان ضرورت نہیں۔
اب تھو ڑ اسا ذکر DHQ یعنی ضلعی ہیڈ کواٹر ہسپتال کی کرتے ہیں 2002-3 ء سے پہلے یہ ہسپتال چند ما ہر ڈاکٹر وں اور باقی ضلع میں تعینات میڈیکل افیسرز کے ذریعے چلا کرتے تھے پھر حکومت کو یہ خیال آیا کہ صوبائی دارلحکومت یا ڈویژنل ہیڈ کواٹر پر بوجھ بڑ ھ رہا ہے اس لئے ضلعی ہیڈ کو اٹر ہسپتالوں کو مز ید سہو لیات سے آراستہ کیا جائے اس کے لئے World Bank سے سافٹ لون اور گرانٹ لیکر DHQ کو اپ گریڈ کر نے کا سلسلہ شروع ہوا ہر DHQ میں 16 کے لگ بھگ سپشلٹی کے پوسٹ پیدا کئے گئے یعنی 350 بستروں والا A گریڈ اور 200 بستروں والا B گریڈ۔۔۔۔ عمارتیں بن گئیں پوسٹوں پر تعینا تیاں ہوگئیں کلاس فور ملازمیں کی تعینا تیاں سیاسی بنیادوں پر ہونے لگیں کیونکہ اسمبلی ممبران کو استحقا ق دیا گیا بہر حال ضلع کی سطح تک بہتر ی آگئی مگر وہ مقصد جس کے لئے قرض اور گرانٹ لیکر کام شروع کیا گیا تھا اس کا حصوں خواب ہی رہ گیا۔
صوبائی اور ڈویژنل ہیڈ کواٹر میں ٹیچنگ ہسپتالوں پر بوجھ کم ہونے کی بجا ئے زیادہ ہو گیا مریض جو بہتر علاج کی تلاش میں جانے لگے اُ ن کا مقصد بھی پورا ہو تا نظر کم آنے لگا کیونکہ وہاں مریضوں کارش کم نہ ہوا
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کو مزید اصلاحات کر نے کی سو جھی اور MTIایکٹ کے تحت ان ہسپتالوں کو خود مختاری دی گئی اب صوبہ میں ہیلتھ کے دو متوازی نظام چل رہے ہیں ایک حکومتی اور دوسری خود مختارMTI محکمہ صحت(حکومتی) میں اس حکومت کے چارسال کے بعد ایک قابل مدبر محنتی اور پر عزم بند ے کو سکرٹری لگا یا گیا ہے جس نے حکومتی محکمہ صحت کو قدر ے نہیں بلکہ کافی حد تک حالت سد ھار نے کی کوشش کی ہے میرا مطلب عابد مجید صاحب ہیں جس نے حکومتی پالیسوں کو عملی جامہ پہنا یا پالیسوں کی پیچید گیوں ے واقف ہونے کے نا طے اُس نے پورے صوبے میں ایک انقلاب پیدا کیا ہوا ہے اور ڈسپنسریوں سے لیکر DHQ تک ڈاکٹروں کی تعیناتیاں کی ہیں۔اور اُن کی مانیٹرنگ کا ویک مربوط نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ اب یہ اُمید بن رہی ہے کہ حکومتی والا نظام بہتری کی طرف گامزن ہے مگر MTI اب بھی اُمید اور نا اُمید ی کے درمیان معلق ہے۔
اتنی زیادہ مغزکھپائی کے بعد اگر اس ناچیز نے مشورے کے طور پر چند سطور نہ لکھے تو ایسا لگیگا کہ اخبار کے ایک صفحے کو کسی دوسری کارآمد مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ضا ئع کیا گیا۔
میرا یہ حقیر مشورہ ہے کہ ہر MTI کا Board اف گو رنرز اور چیئر مین کوئی اہم پالیسی فیصلہ کرتے وقت محکمہ صحت کے سکرٹری کو اس میں ضرور شامل کریں اور خاصکر موجودہ سکرٹری صاحب کے ارادے نیک لگتے ہیں کوئی خاص پیچدگی نہ ہو گی دوسری اہم بات یہ ہے کہ پالیساں تبدیل ہوتی رہتی ہیں کل کو اگر بڑے سطح پر یہ فیصلہ ہو جائے کہ MTI ایکٹ واپس۔۔۔۔۔۔ تو اُس صورت میں اس نظام کو محکمہ صحت نے ہی چلا نا ہے اور اس وقت جو تکلیف محکمہ صحت کہ پہنچے گی اس کا اندزہ BOG خود بھی لگا سکتے ہیں مگر مصلحت کے تحت خاموشی ہیں۔ مثلاً ایک مثال کو لے لیتے ہیں۔ایک ڈاکٹر یا دوسرا کوئی ا سٹاف MTI میں ہو تو موجودہ ڈھانچے میں اسکو اپنی سروس سیکورٹی واضح نہیں اس کی مرا عات سرکاری ساتھی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ تنخواہ ہی کو لے لیں M/O کی تنخواہ جو Non MTI والوں کو ملتی ہیں اس میں اور MTI والوں کی تنخواہ میں واضح فرق ہے۔ جہاں تک ٹرانسفر اور تادیبی کاروائی کا تعلق ہے اس میں بھی پالیسیاں اتنی شفاف نہیں جتنی سر کاری نظام میں ہیں۔بہر حال تجرباتی ہونے کے ناطے کچھ وقت اسے بر داشت کرنا پڑیگا۔ لیکن تمام فیصلوں میں محکمہ صحت (حکومتی) کو با خبر رکھنے اور فیصلہ سازی کا حصہ بننے کی اشد ضرورت ہے۔
(موصوف محکمہ صحت میں 34 سال سروس کے بعد ریٹاریڑ ہو چکے ہیں اور پرائیوٹ ہسپتال چلا رہے ہیں)۔
تازہ ترین
- ہومنو تعینات ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر چترال رفعت اللہ خان (PSP) نے پولیس سہولت مرکز زرگراندہ کا دورہ کرکے مختلف شعبہ جات کا معائنہ کیا۔
- ہومنو تعینات ڈی۔پی۔او لوئر چترال رفعت اللہ خان(PSP) نے سٹی پولیس اسٹیشن چترال کا معائنہ کیا
- مضامینداد بیداد۔ پشاور کی تزئین و آرائش۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی
- ہومڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر چترال رفعت اللہ خان (PSP) نے آج باقاعدہ طور پر اپنے عہدے کا چارچ سنبھال لیا۔
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔’نظام ضرور بدلے گا “۔۔محمد جاوید حیات
- ہوملوئر چترال ٹریفک وارڈن پولیس کی غیر قانونی فلیش لائٹس اور سلنسرز کے خلاف مہم
- ہوممحکمہ صحت خیبرپختونخو کے نئے بھرتی ہونے والے میڈیکل آفیسرزکو تقررنامے جاری
- ہوملیبارٹی ٹیسٹوں کے نرخنامے ہسپتالوں میں نمایاں مقامات پرآویزا کئے جائیں۔ وزیر صحت کی ہدایت
- ہومدادبیداد۔۔۔پشاور تعلیمی بورڈ کا بہترین اقدام۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہومعمران خان کو رہاکراؤ مہم کا آغازچترال سے؛ پریڈ گراونڈ میں پی ٹی آئی کا جلسہ، مرکزی رہنما احمد خان نیازی ودیگر کی شرکت





