دروش(نمائندہ چترال میل)گذشتہ دنوں دروش میں ایک نامعلوم محنت کش کی ہلاکت کے واقعے نے سماجی میڈیا میں نئے بحث کو شدت کے ساتھ بڑھا دیا ہے جسمیں تبصرہ نگار اس واقعے کے حوالے سے جہاں پولیس کیخلاف سخت غصے کا اظہار کر رہے ہیں وہیں سماجی تنظیمات و راہنماؤں اور مقامی میڈیا پر بھی شدید نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ واقعات کے مطابق گذشتہ دنوں ایک مجروح شخص کو شام کے وقت نامعلوم افراد نے دروش ہسپتال پہنچایا اور خود غائب ہوگئے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق اس وقت ہسپتال میں ایمرجنسی تھی کیونکہ ارندو کے علاقے سے فائرنگ کے زخمیوں کو لایا گیا تھا اور رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نامعلوم افراد کھسک گئے تاہم ہسپتال انتظامیہ کے بقول انہوں نے اس لاوارث مجروح کے متعلق فوری طور پر پولیس کو آگاہ کیا۔ عین موقع پر چترال پوسٹ کے نمائندگان موجود تھے جنہوں نے مجروح کی تصاویر لیکر مختلف جگہوں پر چسپاں بھی کرائے تاکہ لاوارث لاش کی شناخت ہو سکے۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے چترال پوسٹ کو بتایا کہ ہسپتال پہنچنے کے کچھ دیر بعد مجروح جان بحق ہوگیا۔ ابتدائی طور پر یہ بتایا گیا کہ بظاہر مجروح کے جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں ہیں تاہم حتمی جانکاری پوسٹ مارٹم کے بعد ہوگی۔ اس موقع پولیس اہلکار متوفی نامعلوم شخص کے فنگر پرنٹس لیکر نادرا کے ذریعے شناخت کرنے کی کوشش کی جبکہ رحیم یار خان کے اس ٹیلر ماسٹر سے رابطہ کیا گیا جسکا لیبل متوفی شخص کے کپڑے پر موجود تھے۔ متوفی کے موبائل کا پورا ڈیٹا حذف تھا۔ ابتدائی طور پر اس واقعے کو ایک حادثہ کے طور پر دیکھا جاتا رہا۔ متوفی کی لاش شناخت کی غرض سے کم از کم تیس گھنٹے تک دروش ہسپتال میں رکھی گئی تاہم بعد ازاں اسے مقامی رضاکاروں نے تبلیغی مرکز کے قریب واقع قبرستان میں سپرد خاک کیا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا میں چلنے والی بعض خبریں خلاف حقیقت ہیں۔ یہ خبر بھی غلط ہے کہ پولیس کے بھاری اہلکاروں کی موجودگی میں خفیہ طور پر دفنایا گیا حالانکہ متوفی کی شناخت کے حوالے سے دروش بازار میں اشتہارات لگائے گئے تھے اور تصاویر فیس بک پر بھی اپ لوڈ تھے۔ تدفین کے موقع پر مقامی تھانے کے ایس ایچ او اپنے ساتھ چار یا پانچ اہلکاروں کے ہمراہ موجود تھے جبکہ نائب تحصیلدار دروش اور لیویز کے دو تین جوان بھی موجود تھے۔ تدفین اور نماز جنازہ کی تصاویر بھی بعض افراد کی طرف سے سوشل میڈیا میں اپ لوڈ کئے گئے ہیں۔ اس واقعے کے حوالے نئے انکشافات اگلے روز ہوئے جبکہ یہ اطلاعات منظر عام پر آگئیں کہ متوفی دروش کے نواحی علاقے شیشی میں گندم کی کٹائی میں مصروف تھا کہ مبینہ طور ایک نوجوان مسمیٰ ضیاء الرحمن نے اسے مارا ہے۔ ضیاء الرحمن کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ اس وقت وہ سرکاری ڈیوٹی پر نہیں تھا بلکہ چھٹی پر اپنے گھر آیا ہوا تھا جبکہ اسکی ڈیوٹی خیر آباد پل پر بتائی گئی ہے۔ چترال پوسٹ کی طرف سے نہایت ذمہ داری کیساتھ اس سارے عمل، گردش کرنے والے خبروں پر نظر رکھا گیا تھا جبکہ چترال پوسٹ کی ایک ٹیم نے شیشی کا دورہ بھی کیا تاکہ حقائق سے مکمل آگاہی کے بعد ایک رپورٹ مرتب کی جاسکے۔ تاہم باوجودہ کوشش بسیار کے کوئی ایسا مستند گواہ ہمیں نہیں ملا جو کہ اس واقعے کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرے۔جن چند افراد کے ساتھ بات ہوئی انہوں نے بھی نہایت محتاط انداز اپنایا اور واقعے کے بارے میں کھل کر بات نہیں کی جسکی بناء پر قارئین تک مصدقہ اور مستند خبر پہنچانا عملاً ممکن نہیں ہوا۔ صحافتی ادارے کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی خبر کو چلانے سے قبل اسکی صحت کے بارے تصدیق کر لے اور مکمل جانکاری کے بعد خبر شائع کی جائے تاہم مذکورہ واقعے کے حوالے سے صرف قیاس آرائیاں اور افواہیں ہی گردش میں رہیں۔ اس سلسلے میں پولیس نے بھی انکوائری شروع کر رکھا ہے جبکہ کچھ نمونے ٹیسٹ کیلئے لاہور بھیجوائے گئے ہیں جنکی رزلٹ کا انتظا ر ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین اطلاع کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ متوفی شخص کا پوسٹ مارٹم رپورٹ مرتب کیا جا چکا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ شخص کی موت چہرے یا ناک میں فریکچر اور زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ذرائع نے نام نہ بتانے کی شرط پر چترال پوسٹ کو بتایا کہ دروش ہسپتال کے ڈاکٹر اپنی رپورٹ پولیس کو دئیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ شخص فریکچر کی وجہ سے ہلاک ہوا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنیوالے بعض خبریں قرین انصاف نہیں۔ پولیس نے پہلے ہی مرحلے میں متوفی کی شناخت کی کوششیں شروع کی اور اس ضمن میں اسکے پاس موجود موبائل سم کا مکمل ڈیٹا حاصل کر لیا، اسکے علاوہ اگلے روز پولیس نے اسی ڈیٹا کی مدد سے رحیم یار خان میں ایک بھٹہ خشت کے مالک مسمیٰ حسن سے رابطہ کرکے معلومات حاصل کر لی، متوفی کی تصویر بھٹہ خشت کے مالک حسن کو بھیجدی گئی اور انہوں نے متوفی کی شناخت مسمیٰ اسمعیل سکنہ افغانستان کے طور پر کی۔ بھٹہ خشت مالک نے پولیس کو بتایا کہ متوفی انکے پاس کئی سالوں سے مزدوری کرتا تھا اور چند مہینے قبل اس پر فالج کا حملہ ہوا، صحت یاب ہونے کے بعد متوفی نے بھٹہ میں مزدوری سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے وہاں سے رخت سفر باندھ لیا۔ معلومات کے مطابق متوفی خود کو افغانستان کے علاقے ”لغمان“ کا رہائشی اور نسلاً ازبک بتاتا تھا۔بھٹہ خشت کے مالک کے بیان کو باضابطہ طور پر ریکارڈ کرانے کے لئے چترال پولیس کی ٹیم رحیم یار خان روانہ ہو چکی ہے جبکہ پولیس کی ایک اور ٹیم فرانزک ٹیسٹ کے لئے لاہور جا چکی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکار ضیاء الرحمن کو معطل کرکے چترال پولیس لائن میں حاضر کیا گیا ہے اور ضابطے کی کاروائی جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کیس کے حوالے سیشن جج چترال نے بھی پولیس سے مکمل رپورٹ طلب کر لی ہے۔
یہاں پر معزز قارئین سے یہ بھی گذارش ہے کہ صحافتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افواہوں کی بنیاد پر خبریں بناکر سنسنی پھیلانے کے بجائے کچھ مستند معلومات کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنے معزز قارئین کو مستند خبر پہنچائی جائے وگرنہ بے بنیاد یا افواہوں کی بنیاد پر بنائے گئے خبروں کی وجہ سے جہاں کئی افراد کی دل آزاری ہوتی ہے وہیں ادارے کے ساکھ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ لہذا قارئین اس واقعے کے حوالے سے ہر گز یہ نہ سمجھیں کہ کوئی خبر نہیں لگائی گئی بلکہ خبر کی تصدیق کے لئے تاخیر ہونا نا گزیر تھا۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات