خودکشی کے مترادف عمل
قانون نظام حیات کے لئے وضع کردہ قواعد وضوابط کا نام ہے۔ اس کی پاسداری میں بقا اور اس سے انحراف اور خلاف ورزی میں بگاڑ ہے۔معاشرے کے تمام افراد کا قانون کی نظر میں یکسان حیثیت کا حامل ہونا اس کی وقعت اور اہمیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اور یوں انصاف کی مہک سے پورہ معاشرہ معطرہونا یقینی امر ہے۔ اس کے برعکس اگر قانون پر عمل درامد کے دُھرے معیار اپنائے جائیں تویہ ظلم اور ذیادتی کے مترادف ہوگا۔ اور اللہ رب العزت کفر کو برداشت کریں گے مگر ظلم کو گوارہ نہیں کریں گے۔ہمارے ہاں بدقسمی سے نہ عوام کی طرف سے قانون کے احترام کا خیال کیا جاتا ہے۔ اور نہ اس کی عملداری پر مامور افراد کی طرف سے قانون کو اس کے اصل روح کے مطابق روبہ عمل لانے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے کے اندر جرائم اور خودسری میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ قصاص میں حیات کا جو تصور قرآن عظیم الشان ہمیں دیتا ہے۔ اس کے اندر معاشرے سے بگاڑ کے خاتمے کا فلسفہ پنہان ہے۔قانون کے مطابق جہاں زندگی کے مختلف اسلوب کی نشان دہی کی جاتی ہے۔وہاں سڑک پر چلنے کے لئے موٹر گاڑیوں کی رفتار کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ تاکہ اس سے حادثات سے بچا جاسکے۔مگر آئے دن ہمارے معاشرے میں اس عمل کی خلاف ورزی کے شاخسانے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر تیز کام شیطان کے ہونے کے اسلامی تصور کی خلاف ورزی کے اس عمل میں کمی نظر نہیں آتی۔ اور نہ قانون نافذ کرنے والوں کی کڑی نگرانی اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کی گرفت اور عبرت ناک سزا کا تصور ابھر کر سامنے آتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم جس طرح اخلاقی طور پر موت کے پروانے موبائل کی صورت میں اپنے بچوں کے ہاتھوں میں تھماتے ہیں اسی طرح انکی اور ان کے زریعے دوسرے لوگوں کی زندگی کا چراغ بجھانے کے لئے موٹر سائیکل کی صورت میں انہیں فرشتہ اجل کی تحویل میں دیتے ہیں۔ اور یوں ہوا میں اڑنے کا معرکہ سرکرنے کے شوقین سر پھیرے نوجوان شاہراہوں پر دندناتے پھیرتے ہیں اور خود بھی اس بے ضابطگی کا شکار ہونے کے ساتھ دوسرے راہگیروں کو بھی اپنی حماقت اور نا عاقبت اندیشی کا شکار کر تے ہیں۔ اور یوں معاشرے کے اندر سڑک پر حادثات کی شرح میں موٹر سائیکل کے حادثے سر فہرست ہیں اس سلسلے میں اگر اس کے استعمال کرنے کے لئے معیار کا تعین نہ کیا گیا تو سڑکوں پر معصوم بچوں اور پردہ پوش خواتین کے لاشوں کے اٹھنے کا سلسلہ بڑھتا جائے گا۔ اس لئے ارباب اختیار اور خصوصاً نظام ٹریفک پر مامور اپنے بھائیوں سے بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے۔ کہ وہ اس مہلک عمل کی روک تھام کیلئے قانونی ضابطوں کی عمل داری کو یقینی بنانے میں کوئی کثر باقی نہ چھوڑیں۔ تاکہ اس جنون کے شر سے عام لوگوں کی جان محفوظ رہ سکیں۔
٭٭٭٭
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات