”چیخ“
میں ایک ماں ہوں۔۔عمر گذر چکی ہے۔۔آکھیاں بے نور ہیں۔سماعت گئی ہوئی ہے۔۔ہوش ٹھکانے نہیں رہتا۔۔ٹانگیں جواب دے گئی ہیں۔۔بازو شل ہیں۔میں آپ لوگوں کی ماں ہوں۔۔ڈرایؤروں کی ماں ہوں۔۔موٹر سائیکل سواروں کی ماں ہوں۔۔سارے پولیس والوں کی ماں ہوں۔۔آفیسروں کی ماں ہوں۔۔سب تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ماں ہوں۔۔آپ سب کے لئے میرا دل دھڑکتا ہے۔۔میرے ہاتھ آپ کی خیر سلامتی کے لئے دعا کیلئے اٹھتے ہیں۔۔اللہ آپ کو سلامت رکھے۔۔۔میں ایک پسماندہ گاؤں میں پیدا ہوئی۔۔میں نے سکول نہیں پڑھی۔۔میں نے دنیا نہیں دیکھی۔۔ہاں میرے بازو تمہارا تکیہ بنے رہے ہیں۔۔میری نیندیں تجھ پہ قربان ہو تی رہی ہیں۔۔میری جوانی تجھ پہ نثار ہو چکی ہے۔۔میری گود میری پیٹھ تیری سواری رہی ہیں۔۔میں نے تجھے ٹھوکر کھا کے گرنے سے بچائی ہے۔۔آگ میں جلنے سے بچائی ہے۔۔آفت بلا کیلئے ڈھال بنی ہے۔۔پھر تجھے احتیاط کرنے کی نصیحتیں کرتی رہی ہوں۔۔میری جوانی میں کشادہ سڑکوں کی جگہ پکڈنڈیاں ہوتی تھیں۔۔پختہ پلوں کی جگہ طوفانی دریاوں پر لکڑی کے باریک تختے ڈال کر پل بنائے جاتے تھے۔۔ندیاں سیلاب اگھلتیں۔۔پہاڑ پتھر لڑکاتے۔۔انسان کائنات کے رحم و کرم پہ تھا۔۔ اس لئے تجھے ہر لمحے خطرات لاحق تھے۔۔ان خطرات کو روکنے کے لئے کوئی قانون نہیں ہوتے۔۔مجھے تو نہیں پتہ کہ کوئی قانون ہوتے۔۔پکڈنڈیوں پہ چلنے کے لئے کیا قانون ہوگا۔۔پھر ہم نے سن لیا کہ کشادہ سڑکیں بن رہی ہیں۔۔پھر ان سڑکوں پہ مختلف گاڑیاں دوڑنے لگیں۔۔پھر ہماری دعاؤں میں اضافہ ہوا کہ ہم ان کو چلانے والوں کے لئے بھی دعائیں کرنے لگے۔۔کبھی اس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوتا تو دل دھڑکتا۔۔۔ہم سنتے رہتے کہ پولیس ہماری جان و مال کا محافظ ہے۔۔اس کے پاس قوانیں ہیں۔۔کوئی اس سے نہیں بچ سکتا۔۔ہمارے وقت میں چھوٹوں کو بڑا کام کرتے دیکھ کر ان کو منع کیا جاتا۔۔کہ تم ابھی ”کم سن“ ہو یہ تمہارے کرنے کے کام نہیں ہیں۔۔لیکن زمانہ ترقی کرتا گیا۔۔”چھوٹے“ بڑے بڑے کام کرنے لگے۔۔لیکن یہ میری سمجھ سے باہر ہی رہا۔کہ یہ قانون کیا چیز ہوتی ہے۔۔اور اس کے فوائدکیا ہیں۔۔ایک دن اپنے منجھلے بیٹے سے پوچھ ہی ڈالی کہ بیٹا یہ پولیس کیا کرتی ہے۔۔اس نے نہایت ناگوری سے کہا۔۔تو پوچھ کر کیا کرو گی۔۔۔مجھے اپنی لاعلمی پہ خفت اٹھا نا پڑی۔اس کی بیٹی شگوفہ ساتھ بیٹی تھی۔ اس کو شاید مجھ پہ ترس آیا۔۔کہا بڑی ماں میں بتاتی ہوں۔۔”پولیس ہماری جان و مال،عزت ونامو س کی حفاظت کرتی ہے۔۔ملک میں اصول ہیں ماں جی۔۔ان اصولوں پر ہم سے سختی سے عمل کراتی ہے۔۔اگر پولیس نہ ہو گی تو دکاندار چیزیں گران بیجے گا۔۔چور دن دیہاڑے چوری کرے گا۔۔جھوٹ بولنے والا جھوٹی گواہی دے گا۔۔زبردست زیر دست کو دبائے گا۔۔غریب کے کوئی اوقات نہیں ہونگے۔۔جس کی لاٹھی ہوگی بھینس بھی اسی کی ہوگی۔۔۔ڈرائیور سڑکوں پر چلنے والوں کو کچل دے گا۔۔۔“میں نے چیخ کر کہا بس بیٹا یوں نہ کہو۔۔میری چیخ میرے بدن کو لرزا گئی۔۔میری نظروں کے سامنے کشادہ سڑکیں آگئیں اور ان پر کچلے ہوئے تڑپتے لاشے نظر آنے لگے۔۔مجھے پولیس سے محبت ہوگئی۔۔پھر میرے دل سے اس کے لئے سدا دعائیں نکلنے لگیں۔۔لیکن بیٹا آج میں چترال کے کشادہ سڑک ”بائی پاس“روڈ پہ گاڑی سے اُتری۔۔۔بتائی تھی کہ ٹانگیں جواب دے گئیں ہیں۔۔کمبخت تھرا گئیں۔۔میں سیدھا چل نہیں سکتی تھی۔۔تو بیٹا میرا ایک بیٹا موٹر سائیکل دوڑاتا ہواآیا۔۔اس کی یہ ماں اس کو نظر نہ آئی۔۔مجھ سے ٹھکرا گیا۔۔میں گر گئی۔۔بدن چور چور ہوگیا۔۔پیچھے سے آتی ہوئی ایک اور گاڑی نے میرا سر کچل ڈالی۔۔پولیس،قانون،جان و مال کی حفاظت۔۔پاسبانی کا حق،ماں کا مقام،ٹریفک کا اصول۔۔ اس سمے تویہ سب کام نہ آئے۔۔میں تو چلی گئی۔۔ایک دو دن تک موضوع بحث رہونگی۔۔ موقع پر موجود لوگ یہ کہانی جھوم جھوم کر سنائیں گے۔۔لیکن پھر بھول جائینگے۔۔۔پھر کوئی دوسر اکچلا جائے گا پھر تیسر ا۔۔کیونکہ مجھ سے صرف ۵ دن پہلے ایک پھول سا بچہ کچلا گیا تھا۔۔پولیس۔۔قانون۔۔۔لیکن بیٹا آج کل لوگ اپنے آپ کو ”تعلیم یافتہ“ کیوں کہتے ہیں؟۔۔کیا سکول میں یہ سب کچھ پڑھایا نہیں جاتا کہ ”قانون“ کی حفاظت کرو۔۔اصولوں کی پابندی کرو۔۔انصاف کے تقاضے پورے کرو۔۔یہ پولیس بھی ایک تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرے کی پولیس ہے۔۔اس سے تو حیوانوں جیسے سلوک کی توقع نہیں کی جائے گی۔۔یہ بچہ جو موٹر سائیکل دوڑا رہا ہے یہ بھی کسی کا بیٹا ہے۔یہ بھی کسی گھر میں پرورش پا چکا ہوگا۔۔پولیس اس کے ساتھ دوڑتی تو نہیں پھرے گی۔۔اس کو پتہ ہونا چاہئیے کہ سڑک پہ کس طرح چلنا چاہئیے ورنہ تو وہ موٹر سائیکل لے کے نہ نکلے۔۔یہ قانون کوئی اتنی پیچیدہ چیز نہیں ہوتی اس کو ہر کہیں پڑھا جا سکتا ہے سڑکوں پہ،گلی کوچوں میں،بازار میں اداروں میں،گھر میں،کھیل کے میدانوں میں،مسجدوں مدرسوں میں،محفلوں میں۔۔۔۔کیونکہ یہ جنگل نہیں ہے۔۔۔لیکن بیٹا۔۔ترقی۔۔۔صرف سڑکیں بنانے کا نام نہیں ہے۔۔اگر سڑکوں میں قانون کی حکمرانی نہ ہو تو ایسا ہوتا ہے۔۔بیٹا میں سب کی ماں تھی۔۔میں تیری کشادہ سڑکوں میں ریزہ ریزہ ہو گئی اپنا خیال رکھئے گا۔۔۔خدا حافظ۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات