دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔یوم آزادی اور بچوں کے جذبات

Print Friendly, PDF & Email

یوم آزادی کی تقریبات ملک میں بڑے دھوم دھام سے مناٸی جاتی ہیں۔ان تقریبات میں بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے جذبات دیدنی ہوتے ہیں گویا یہ دن ان کی عید ہے۔ان کو آزادی کی اہمیت کا پتہ ہو نہ ہو ان کوآزاد وطن کی قدرومنزلت کا اندازہ ہو یا نہ ہو مگر ان کی آنکھوں میں اتری چمک اس ملک کے لیے دعا بن جاتی ہے اور ان کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹ اس ملک کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔بچے سانجی ہوتے ہیں ان کے جذبات خالص ہوتے ہیں وہ دوغلا سوچتے ہی نہیں۔ان کو کیا پتہ ہے کہ غیر قانونی جایٸدادیں کس طرح بناٸی جاتی ہیں۔رشوت کس چڑیا کا نام ہے بد عنوانی گالی ہے کہ گولی۔۔حرام حلال کے درمیان سرخ لکیر کیا اہمیت رکھتی ہے۔بچوں کو کیا پتہ ہے کہ اس ملک کو زندہ رکھنے کے لیے کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔۔کتنے جوان کٹ رہے ہیں کن کن کی نیندیں اڑی ہوٸی ہیں۔کتنے دماغ اس کے بارے میں سوچتے سوچتے تھک جاتے ہیں۔اس کے کارخانے میں تھکن سے چور مزدور کا کیا حال ہے اس کا مخلص استاذ اس کا گن گاتے گاتے کلاس روم سے پسینے میں شرابور نکلتا ہے۔اس کا پائلٹ جان ہتھیلی پہ رکھ کے ہواٶں میں قلابازیاں کھارہا ہے۔رات بارہ بجے اس کا جوان سرحد پہ بندوق سینے سے لگاۓ ہوشیار کھڑا ہے۔اس کی پولیس راتوں کو گلی کوچوں میں گشت کر رہی ہے۔بچے سانجی ہوتے ہیں۔۔انہوں نے گورنمنٹ ہاٸی سکول واشچ میں ایک خاکہ ترتیب دیا تھا۔۔خاکے کے کٸ کردار تھے۔۔سٹیچ پہ دو بوڑھے دیہاتی بیٹھے تھے۔اتنے میں ایک کردار آتا ہے۔۔بہت موٹا ناہنجار سا ہے اس کے گلے میں چارٹ پر جلی حروف حروف میں “بجلی کا بل”لکھاہوا ہے اور اوپر پچاس ہزار روپیہ لکھا ہے ایک کردار دوسرے سے کہتا ہے۔۔ بجلی کا بل آگیا۔۔۔دونوں سہمے سہمے سے اٹھتے ہیں بڑی توجہ سے دیکھتے ہیں ایک چیخ کر دوسرے سے کہتا ہے “پچاس ہزار”اور بے ہوش ہوکر گرتا ہے۔۔دوسرا کردار آتا ہے یہ ایک ڈرائیور ہے۔۔چترال سے گاٶں کا کرایہ مانگتا ہے کیونکہ ایک کردار نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے کردار کہتا ہے کتنا کرایہ۔۔ڈرائیور کہتا ہے کتنا پانچ ہزار دونوں گھتمگھتا ہوتے ہیں۔۔۔حاضرین کے قہقہے۔۔۔۔اگلا کردار آتا ہے۔۔ یہ ایک بچہ ہے چیخ کر کہتا ہے ابو میرا نتیجہ آگیا۔۔ابو نمبروں کا پوچھتا ہے بچہ کہتا ہے بارہ سو میں سے گیارہ سو اسی۔۔۔ابو اس کو تپڑ مارتا ہے اور حاضریں کو مخاطب کرکے کہتا ہے یہ کیسا نتیجہ ہے۔آخر میں پاکستان آتا ہے۔۔کہتا ہے میرے بیچارے باشندوں میرے قصوروار اور نادان باشندوں اسلام علیکم۔۔یہ دونوں کردار کھڑے ہوتے ہیں پوچھتے ہیں کہ تم کون ہو؟۔۔۔کہتا ہے میں پاکستان ہوں۔۔ایک کردار کہتا ہے کیا تم خوابوں کی وہ سرزمین ہو جس کا خواب ہمارے آبا و اجداد نے دیکھا تھا۔۔جی ہاں میں وہی ہوں۔۔۔۔لیکن ہم نے تو کسی خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے نہیں دیکھا۔۔۔وہ امن کا خواب۔۔۔۔ترقی و خوشحالی کا خواب۔۔اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا خواب۔انصاف عدل کا خواب۔۔۔فلاحی، جمہوری، اسلامی ریاست کاخواب۔۔۔ پاکستان مسکراتا ہے۔۔اور اہ بھر کر کہتا ہے کہ ریاست ایک خواب کا نام ہے اس کی تعبیر اس کے باشندوں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔اگر اس کے باشندے خوابوں کی تعبیر کے معیار پر پورا اتریں۔۔میرے باشندوں۔۔۔ایک مرد قلندر ہوا کرتا تھا جس نے پہلے میرا خواب دیکھا تھا۔۔۔انہوں نے کہا تھا۔۔۔جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود۔۔۔کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہان پیدا۔۔۔ تمہیں سوچنا چاہیے کہ میں ایک خواب کا نام ہوں۔۔میرے اوپر امن قائم کرنا تمہارا کام ہے۔۔میرے کھیت کھلیان ہیں ان سے سونا اگلوانا تمہاری ڈیوٹی ہے۔۔میرے پہاڑ ہیں ان سے سونا نکالنا تمہارا کام ہے۔۔میرے دریا ہیں ان سے فاٸیدہ اٹھانا تمہارا فرض ہے۔۔میرے سمندر ہیں ان کو استعمال کرنا تمہاری قابلیت ہے۔میرے جنگلات ہیں ان کی حفاظت تمہارے ذمے ہے۔۔یہ سب کچھ تم صداقت سے انجام دو گے تب میں خواب بن جاٶں گا۔۔۔جاپان کی سرزمین خواب نگر نہیں اس کو جاپانیوں نے خواب نگر بنایا ہے۔۔چینا کی زمین میرا مقابلہ نہیں کر سکتی اس کو dream land چینیوں نے بنایا ہے۔امن محبت سے آتا ہے بتاٶ تمہیں ایک دوسرے سے کتنی محبت ہے۔عدل انصاف کی پاسداری سے ممکن ہوتا ہے آپ نے عدل کی کتنی پاسداری کی ہے۔۔۔زندہ قومیں ملک کو قصوروار نہیں ٹہھراتے آپنا احتساب کرتے ہیں۔۔تم اگر اس ملک کو اپنا کہتے ہو تو بھاٸی بھاٸی بن جاٶ۔۔صداقت، امانت اور دیانت کو شعار بناٶ دیکھو گے کہ میں خوابوں کی سرزمین ہوں کہ نہیں۔۔پاکستان تمہاری پہچان ہے۔۔۔تمہیں ماننا پڑے گا کہ تم آزاد ہو۔۔یہ دو کردار بہت جذباتی ہوتے ہیں اور پاکستان زندہ باد کا فلک شگاف نعرہ لگاتے ہیں۔۔۔۔خاکہ بہت سبق اموز تھا۔۔اس لیے کہ یوں سب کچھ ملک خداداد میں ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاتھوں ہوتا ہے۔۔ سیاست دان ہم ہیں۔۔۔أفسر شاہی ہم ہیں۔۔۔محافظ ہم ہیں۔جج قاضی ہم ہیں استاذ ہم ہیں ہم اپنے فراٸض ادا کیوں نہیں کرتے۔ہم صداقت کا بول بالا کیوں نہیں کرتے۔ہم قناعت کو عادت کیوں نہیں بناتے۔ہم قرض پہ کیوں زندہ ہیں۔ہم میں خود انحصاری کیوں نہیں آتی۔۔۔ہم مفاد پرست اور خود غرض کیوں ہیں۔۔۔اور سب سے بڑا سوال کہ ہمارے بچے یہ سب محسوس کیوں کرتے ہیں کہ کچھ غلط ہورہا ہے۔۔۔ ہم جو بھی جیسا بھی ہیں پاکستانی ہیں۔۔۔۔اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرماۓ۔