پھر سے کسی انتقال کیے ہوۓ ذمہ دار کو زندہ کرکے واپس لایا جاۓ اور ان سے سوال کیا جاۓ کہ کارگزاری فرماٸیں۔۔وہ کہے گا کہ لوگوں کی ذمہ داری،لوگوں کا حق بڑا بوجھ ہے اگر تو نے زرہ برابر بھی کسی کا حق مارا ہو آگ سے گزرو گے۔۔۔۔قران نے کہا زرے زرے کا حساب ہوگا۔۔۔۔اقتدار بڑی تکریم کی چیز ہے مگر اس میں مشکلات بھی بہت ہیں تمہارے اوپر ڈھیر ساری مخلوقات کا بوجھ ہوتا ہے۔۔تم اکیلے میں سب کے لیے جواب دہ ہوتے ہو۔یہ ذمہ داری ہی ایسا خوفناک ہے کہ کمر توڑ دیتی ہے۔دریاۓ فرات کے کنارے بھوکے کتے کی فکر کرنی پڑتی ہے۔ہمارے حکمرانوں میں تھوڑا سا بھی فکر آخرت اور خوف خدا ہوتو وہ لرزہ برآندام ہوجاٸیں ان کے پاس اختیارات ہوتے ہیں لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان اختیارات کو استعمال کرنا ان کی ذاتی مرضی پر منحصر ہے اس اختیار کے استعمال میں وہ نہ کسی کو جواب دہ ہیں نہ کسی قانون کا پابند ہیں یہی وہ بد بختی ہے جو ملک میں انارکی اور مایوسی کو جنم دیتا ہے۔ہمارے وزاراۓ اعظم اتنے مغرور اور خود سر ہوتے ہیں کہ ان سے سوال کرنا، ان کو مشورہ دینا، ان سے کسی حق کا مطالبہ کرنا کم عقلی تصور ہوتی ہے۔ملک میں جمہوریت کا نعرہ الاپنے والے جب اختیار حاصل کرلیتے ہیں تو فرعون بن جاتے ہیں ان کے اور عام عوام کے درمیان کھاٸیاں جنم لیتی ہیں دھندوں، چمچوں اور مفادات کا راج ہوتا ہے۔اوراگرخدا نخواستہ ان کے دور میں کوئی معمولی کام ہو بھی جاۓ تو ”میں نے کیا“ کا نعرہ مستانہ الاپتے رہتے ہیں گویا یہ ان کی ذاتی دولت سے کیا ہوا کام ہو۔۔اس میں ملک و قوم کا پیسہ استعمال نہ ہوا ہو۔ہماری حکومتیں کبھی فلاحی نہیں رہیں عوام جمہوریت کے ثمرات بے چینی، کساد بازاری،قرض،مہنگاٸی وغیرہ کی صورت میں دیکھتے رہے، ہاتھ ملتے رہے اور روتے رہے کہ اس جمہوریت سے کوٸی بھی طرز حکمرانی ٹھیک ہے۔اس ناکامی کی شاید کٸ وجوہات ہوں لیکن بڑی وجہ حکمرانوں کی خودسری اور ذاتی مفادات ہی ہیں بس ان کے سامنے اپنا اقتدار ہوتاہے۔وہ اقتدار کو امانت اور بڑی ذمہ داری نہیں سمجھتے بلکہ اپنی صلاحیت سمجھتے ہیں۔اصولا ایسا ہوتا ہے کہ اگر صوباٸی اسمبلی کا ممبر ہو تو وہ اپنے علاقے کے مسائل میرٹ پر رکھتا ہے اور اسی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے وہ اپنی کمیشن،اپنی جاٸیداد اور اپنے ٹھیکوں کے پیچھے نہیں پڑتا۔صوبے کا وزیراعلی اپنے صوبے کے مساٸل اسی طرح میرٹ پہ حل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اورآگے پھر ملک کے وزیراعظم اور حکمران پارٹی کا بھی یہی طریقہ کارہوتا ہے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ایک اقتدار والے کے لیے پہلی اپنی ذات ہوتی ہے اس کا پیٹ بھر جاۓ پھر اس کا خاندان،دوست، احباب وغیرہ ہوتے ہیں اسے کبھی اجتماع کا خیال نہیں آتا۔یہ ذاتی مفادات ہیں کہ ملک کا کباڑہ ہوتا ہے۔۔قرضوں پہ قرض چھڑتے ہیں۔اقتدار بہت بڑی امانت ہے ملک کے وساٸل قوم کی امانت ہیں ان کادرست استعمال ہی راہ نجات ہے ان وساٸل پر قوم کے ہر فردکا برابر کا حق ہے۔اقتدار والا ہرفرد کے سامنے جواب دہ ہے۔۔۔آگے قیامت کا دن آنے والا ہے۔۔ان سیحقوق کے بارے میں پوچھا جاۓ گا اس مصیبت سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔۔اگر اقتدار والوں کو روز حساب پر یقین ہوتا تو وہ انتخابات جیت کر بنگڑا نہ ڈالتے۔اچھل کود کر ناچ گا کر خوشیاں نہ مناتے اس کو آزماٸش سمجھ کر سہم جاتے۔۔۔انسانوں پہ آزماٸشیں مختلف قسم کی آتی ہیں۔دولت اور اقتدار کی آزماٸش خوفناک ہے اس میں انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔جب ہوش میں آتا یے تو سب کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔دنیا کے مضبوط جمہوری ممالک میں اقتدار میں ذات کو شامل نہیں کیا جاتا۔۔اختیار کو مرضی اور صواب دید نہیں کہا جاتا۔۔اختیار ملک دیتا ہے صاحب اقتدار وہی اختیارات استعمال کرتا ہے اگر مناسب استعمال نہ کر سکے تو مستعفی ہوجاتاہے اس کے لیے کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔اگر ہمارے ہاں کی براۓ نام جمہوریت اسلام کے تابع ہوجاۓ تب یہ اقتدار امانت تصور ہوگا ورنہ تو یہ طرز جمہوری ”غلام پختہ کارے“ ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات