دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔”بورڈ کے امتحانات اور ہمارے بچوں کے حاصل کردہ نمبر“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔”بورڈ کے امتحانات اور ہمارے بچوں کے حاصل کردہ نمبر“
کسی زمانے میں جب ہم امتحان دے رہیتھے تو بمشکل پاس ہوتے اور فرسٹ ڈوژن کی بہت بڑی اہمیت تھی۔لوگ مزے لے لے کر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کہتے کہ فلان فرسٹ ڈوژن میٹرک ہے۔اس دور میں اوراس سے پہلے تعلیم میں دھوکے کا عنصرشامل نہیں تھا کاغذ کا ٹکڑا جسے ڈگری کہا جاتا ہے اس کی اتنی اہمیت نہیں تھی۔میرے ابو سے کسی بڑے فارم میں پوچھا گیا کہ استاذ جی آپ کے زمانے کی تعلیمی معیار اور آج کے زمانے کے تعلیمی معیار پر اپنے تجربے کی روشنی میں تفصیلی بحث فرما?یں ابو نے صرف ایک جملہ بولا اور خاموش ہوگیا مجمع چند ثانیے ہکا بکا رہ گیا پھر تالیاں بجانے لگے۔ابو کا جملہ تھا۔۔۔”بچو!ہمارے زمانے میں جو جس جماعت کو پاس کرتا تھا پھر اسی جماعت کو پڑھاتا تھا آج بچے ایسا نہیں کر سکتے“۔۔مجمع کی افرین کو?ی اچھنبے کی بات نہیں تھی بڑا معیاری فارمولا اور معیار بتایا گیا تھا۔۔کیا سنہرا دور تھا تعلیم صلاحیتوں کا نام تھا۔۔محمد علی جوہر کی انگریزی اتنی مضبوط تھی کہ انگریز ان سے اپنی انگریزی درست کراتے تھے وہ یورپ سے تعلیم حاصل کرکے ہندوستان آ? تو تین سول سروس کا امتحان دیا پاس نہ کر سکا۔اقبال کہتے ہیں کہ میں یورپ جا کر اپنی انگریزی ”تھوڑی“ درست کی۔ہمارے زمانے کے بڑے بڑے آفسرز کا تعلیمی ریکارڈ بمشکل فسٹ ڈوژن کا ہے لیکن آج کل بچوں کی جو نمبر سکورنگ ہے عقل دنگ رہ جاتی ہے بندہ چھ سو میں سے 595 نمبر لیتا ہے ک? ایسے سکول ہیں جہاں سا?نس لیبارٹری تک نہیں ہے ان کے طالب علم پریکٹیکل میں پورے کے پورے نمبر لیتے ہیں معذرت کے ساتھ ہم ہر سال ٹاپ ٹن بچوں کے پیپرز نیٹ سے ڈاون لوڈ کرکے دیکھتے ہیں اپنے مضمون میں ک? کوتاہیاں نوٹ کی جاتی ہیں لازم ہے بچہ ریاضی میں طبیعات میں پورینمبر لے سکتا ہے لیکن وہ ادب میں سو میں سے سو نمبر کس طرح لے سکتا ہے کیا یہ خیانت نہیں کہ اس کے جوابات چیک کیے بغیر اس کو نمبر دیے جا?یں ہم ذاتی طور پر جن طلبا کو جانتے ہیں ان کے امتحانی ہالوں میں ان کو پرچہ حل کرتے ہو? کلاس روم میں ان کی محنت کو دیکھتے ہو? یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچے میں اہلیت کتنی ہے مگر جب اس کا امتحانی نتیجہ آتا ہے تو دھنگ رہ جاتے ہیں یہ نمبر سکورنگ بچوں کو ذہنی مریض بنا چکا ہے والدین بھی اس سکورنگ کو معیار سمجھ بیٹھے ہیں۔کوشش کرکے بچوں سے زیادہ نمبر حاصل کراتے ہیں خواہ اس کشمکش میں نقل کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ اسی طرح یہ امتحان اہلییت کا امتحان نہیں رہتا۔ایک سکورنگ کی دوڑ بن جاتی ہے۔۔اس میں بچوں کا نقصان ہوتا ہے وہ بے حوصلہ ہوجاتے ہیں۔وہ محنت پر یقین نہیں کرتے وہ اپنی اہلیت کی جانچ نہیں کر سکتے۔آگے جب مقابلے کے امتحانات ہوتے ہیں تو یہ نمبر سکورنگ کام نہیں آتے۔۔ہمیں اپنے سسٹم پہ سوچنا چاہیے اور آگے امتحانات کی مکینیزم میں مثبت تبدیلی اور پرچوں کی چیکنگ میں نہایت صداقت سیبچوں کو ان کا حق دیا جا?۔ یہ اداروں کی آگے بڑھنے کی دوڑ، یہ سرکاری اور پرائیویٹ کا مقابلہ،یہ بورڈوں کی دوڑ،یہ ضلعوں کا مقابلہ یہ سب تعلیمی عمل میں مثبت نتیجہ نہیں دیتا اس لیے کہ اس میں شفافیت کم ہوتی جا رہی ہے۔وقت کی ضرورت ہے کہ معیار کے پیچھے جایا جا? فضول کی دوڑنہ لگا?ی جا?۔۔