داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔اسٹبلشمنٹ کی تاریخ
پرنٹ اور الیکٹر انک میڈیا میں اسٹبلشمنٹ کا نا م باربار آتا ہے اردو میں یہ لفظ اتنازیا دہ رواج پا گیا ہے کہ اس کی جگہ قیام، استحکام اور استقرار کے اردو الفاظ ہمیں نا ما نوس اورا نجان معلوم ہوتے ہیں دنیا میں جہاں جہاں انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ حا صل ہے وہاں سول بیورو کریسی کو اسٹبلشمنٹ سمجھا جا تا ہے یہ لفظ طاقت کا استعارہ ہے ایک بار امریکی انتخا بات میں نا لائق اور نا تجربہ کار شخص کامیاب ہوکر صدارت کا منصب حا صل کیا عوامی حلقوں نے اس پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا بعض حلقوں نے خد شات بھی ظا ہر کئے کا نگریس کے سپیکر نے یہ کہہ کر سب کو خا موش کرادیا کہ طاقت کا سر چشمہ اسٹبلشمنٹ ہے مجھے اپنے دفتر ی نظام اور بیو رو کریسی پر کا مل اعتماد ہے کہ امریکی مفادات کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا یہی حال دوسرے ملکوں کا ہے پا کستان کے قیام کے بعد سٹیٹ بینک کے افتتاح کی تقریب میں سول بیوروکریسی کے اعلیٰ افیسروں سے خطاب کر تے ہوئے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی نے کہا کہ تمہاری حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے سیا ستدان آتے جا تے ہیں تم ہر دور میں اپنی جگہ جم کر کام کرتے ہو اپنا کام ایمانداری سے کرو جنرل مشرف نے تما م دفاتر میں قائد اعظم کی مذکورہ تقریر کامکمل اقتباس جلی حروف میں فریم کر کے لگوانے کا حکم دیا تھا اور ہر دفتر میں یہ تاریخی اقتباس ہر میز پر رکھا گیا تھا بابائے قوم نے سیا ستدانوں کے بارے میں اپنی ایک اور تقریر میں کہا تھا کہ ”میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں“ قائد اعظم کی وفات کے بعد خواجہ نا ظم الدین، لیا قت علی خان، مشتاق گورمانی، ممتاز دولتانہ اور خان عبد القیوم خان کے درمیان شدید اختلا فات پیدا ہوئے ان اختلا فات کی وجہ سے سیا ستدانوں نے سول بیورو کریسی سے رجوع کر کے سول سروس کے افیسروں کو اقتدار میں شریک کر لیا تا کہ مخا لف سیا ستدانوں کو تکلیف دی جا سکے چوہدری محمد علی، غلا م محمد اور سکندر مرزا کو سیا ستدانوں نے اقتدار میں حصہ دیا اگر چہ 1958ء میں مارشل لا آیا اور فیلڈ مارشل ایوب خان براہ راست اقتدار میں آئے تا ہم اسٹبلشمنٹ کا مفہوم وہی رہا جو 1958سے پہلے تھا الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب کی طرح نامور بیورو کریٹ ایوان اقتدار کی راہداریوں میں طاقتور ستون شما رکئے جا تے رہے اس کے بر عکس آزادی کے 76سال بعد 2023میں اسٹبلشمنٹ سے فوج اوقومی سلا متی کے دوسرے ادارے مراد لئے جا تے ہیں اس کی اپنی ایک تاریخ ہے بھٹو شہید کے دور اقتدار تک قومی سلا متی کی انٹیلی جنس ایجنسیاں غیر ملکیوں پر نظر رکھتی تھیں بھٹو شہید نے پہلی بار ایجنسیوں کو اپنے سیا سی مخا لفین کے خلا ف استعمال کیا اور قانون کے ذریعے ایجنسیوں کو سیا ست میں باقاعدہ کر دار ادا کرنے کی اجا زت دی جب تک بھٹو شہید کی حکومت رہی ایجنسیوں نے ان کے مخا لفین کا جینا حرام کر دیا جب ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو ایجنسیوں نے وہی سلوک خود ان سے اور ان کی پارٹی سے کیا گو یا تاریخ کا پہیہ الٹے ہاتھ گھومنے کا منظر دیکھنے کو ملا، افغانستان کی خانہ جنگی، امریکی مداخلت اور عرب مما لک کی دلچسپی نے پا کستان کے اندر ہلچل پیدا کر دی ہر چیز کو تہہ و بالا کر دیا گیا، اس صورت حال نے ہماری مغربی سرحدوں کو پا مال کیا ڈیورنڈ لائن کا کوئی تقدس نہ رہا مجھ سمیت کئی اخبار نویس اور صو بائی حکام اس بات کے شا ہد ہیں کہ 1980ء میں اُس وقت کے چیف سکرٹری یو اے جی عسیانی نے امریکی سفارت کا روں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کو دو طرفہ آمد و رفت کے لئے کھول دیا گیا ہے اسے دوبارہ بند نہیں کیا جا ئے گا ملٹی میڈیا پر یزینٹیشن کے سلا ئیڈ ز ریکارڈ پر مو جود ہونگے اس دور میں 1985ء کے غیر جما عتی انتخا بات ہوئے تو سیاستدانوں نے پہلی بار اقتدار کی بھیک مانگنے کے لئے خفیہ ایجنسیوں اور فو جی اداروں کی منت سما جت شروع کی جس کو حکومت ملی وہ شکر گزار اور تابعدار ہوا جس کو نہ ملی وہ محروم اورخوار ہوا یوں اسٹبلشمنٹ سے فوج اور خفیہ ایجنسی مراد لینے کا آغاز ہوا آج بھی سیا ست دان سدھر گئے تو اسٹبلشمنٹ کا کردار ختم ہوسکتا ہے یہ ممکن ہے کہ 1948کی طرح سول اینڈ ملٹری اسٹبلشمنٹ ملکی قوانین کی پا سداری اور بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کو اپنا شعار بنائے یہاں مر غی پہلے یا انڈہ والا سوال پیدا ہو تا ہے اگر سیا ستدان ان کو دعوت نہ دیں تو اسٹبلشمنٹ والے کبھی سیاست میں مداخلت نہیں کرینگے۔