داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔قوم کی نما ئندگی کا حق
قوم کا نا م باربار خبروں میں آتا ہے قوم نے ان کو مسترد کر دیا ہے قوم کی توقعات پر ہم پورا اترینگے، قوم کی امیدوں کا مر کز ہماری پارٹی ہے، قوم ہمارے لیڈر کی طرف دیکھتی ہے قوم اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے قوم کو آپ پر فخر ہے قوم کا مستقبل ہماری پارٹی سے وابستہ ہے قوم نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے، ووٹ قوم کی اما نت ہے مگر آج تک ہم نے ان خبروں کے پیچھے جھا نک کر نہیں دیکھا کہ قوم سے کون مراد ہے؟ قوم کدھر رہتی ہے؟ قوم کی امنگوں کے بارے میں کس نے تحقیق کیا ہے؟ اور قوم کا نما ئندہ بن کر قومی جذبات کی تر جما نی کا حق کس کو حا صل ہے؟ ہمارے دوستوں کا حلقہ اخباری کا رکنوں پر مشتمل ہے ان لوگوں نے قوم کے نا م کی تکرار اتنی بار سنی ہے کہ کان پک گئے ہیں دوستوں کے اس حلقے میں قوم کی الگ شنا خت مشہور ہے ہم جہاں کوئی معذور بندہ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں قوم کی مدد کرو، جب کہیں بھکاری نظر آتا ہے ہم کہتے ہیں قوم کو بھیک دیدو جب کوئی پہلوان دنگل سے ہار کر آجا تا ہے ہم کہتے ہیں قوم کو پھر مار پڑ گئی جب کسی گھر سے 18غریب بچے ایک ساتھ با ہر نکلتے ہیں تو ہم بے ساختہ کہتے ہیں قوم کے نو نہال آگئے اور یہ قوم کے نا م کو بے محل دہرانے کا فطری رد عمل ہے اگر سچ پو چھیں تو ہماری پا رلیمنٹ بھی قوم کی نمائندگی کے معیار پر پوری نہیں اتر تی ملک کے 98فیصد لو گ غریب، محنت کش، مہذب اور شریف نسل سے تعلق رکھتے ہیں پارلیمنٹ کے 1300نما ئیندوں میں اس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد کبھی دس بارہ سے زیا دہ نہیں ہو تی کیونکہ مو جودہ حالات میں ووٹ کے ذریعے صرف جا گیر دار اور سرمایہ دار ہی آگے آسکتے ہیں جو دو فیصد کی نما ئندگی کر تے ہیں مزدوروں کا کوئی نما ئند ہ 50کروڑ روپے لگا کر اسمبلی میں نہیں آسکتا، کسا نوں کا کوئی نما ئندہ 50کروڑ روپے خر چ کر کے اسمبلی میں آنے کی کو شش نہیں کر سکتا اور جو لوگ اسمبلی میں آجا تے ہیں وہ عوام کا دکھ درد نہیں جا نتے کوئی جا گیر دار اور سرمایہ دار عوام کی مارکیٹ سے سودا سلف نہیں خرید تا کوئی جا گیر دار اور سرمایہ دار سرکاری ہسپتال سے علا ج نہیں کرا نا کوئی جا گیر دار اور سرمایہ دار اپنے بچوں کو سر کاری سکول میں نہیں پڑھا تا حکومت کسی کی بھی ہو کا بینہ کے وزراء کراچی اور لا ہور کے دو پرائیویٹ سکولوں کے پڑھے ہوئے ہو تے ہیں طرز حکومت صدارتی ہو یا پارلیمانی کا بینہ کے وزراکراچی اور لا ہور کے دو پرائیویٹ سکولوں کے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں سرکاری سکولوں کے پڑھے ہوئے نہیں ہو تے طرز حکومت صدارتی ہو یا پارلیمانی کا بینہ کے وزراء اردو اخبار نہیں پڑھتے اردو خط نہیں پڑھ سکتے، اردو خبریں نہیں سنتے وہ انگریزی بولتے ہیں، انگریزی پڑھتے ہیں اور انگریزی میں سوچتے ہیں قوم 72مقا می زبا نیں بولتی ہے اردو کو بطور رابطے کی زبان استعمال کر تی ہے کا بینہ کے وزراء مقا می زبانوں کو حقیر سمجھتے ہیں اردو سے با قاعدہ بعض رکھتے ہیں اس لئے قوم کی دنیا الگ ہے پارلیمنٹ کی دنیا ہی الگ ہے قوم کیا سوچتی ہے؟ پارلیمنٹ کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہو تا پارلیمنٹ کو قوم کا حقیقی نمائیندہ بنا نے کے لئے دنیا میں تین ماڈل مشہور ہیں، سب سے پہلا ماڈل یہ ہے کہ انتخا بی اخرا جات ختم کر کے ہر پارٹی کے غریب کارکن کو انتخابات لڑنے کا موقع دیا جا تا ہے اس ما ڈل میں 90فیصد اراکین پارلیمنٹ سیا سی جما عتوں کے نظر یا تی کارکن، غریب، محنت کش اور قابل یا لائق وفائق لو گ ہو تے ہیں دوسرا ماڈل یہ ہے کہ مقننہ کے دو ایوان ہو تے ہیں ایک ایوان عام لوگوں کے لئے ہوتا ہے جس میں سیا سی کارکن، غریب، محنت کش اور متوسط یا نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے لو گ نمائندہ بن کر اسمبلی میں آتے ہیں، تیسرا ماڈل یہ ہے کہ اسمبلی کے اندر محنت کشوں، کسا نوں، مزدوروں، غریبوں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے 50فیصد نشستیں رکھی جا تی ہیں یہ طریقہ کمیو نسٹ بلا ک میں رائج ہے وطن عزیز پا کستان کا ما ڈل کسی بھی جمہوری ملک میں رائج نہیں دولت کے بل بو تے پر اسمبلی کی نشست حا صل کرنے کا طریقہ مہذب معا شرے میں پسند نہیں کیا جا تا جمہوریت کی بنیا د سیا سی جما عت پر رکھی جا تی ہے اور سیا سی جما عت کسی ایک شخص کے گرد نہیں گھومتی پارٹی قیا دت میراث میں باپ سے بیٹے یا بیٹی کو نہیں ملتی سیا سی جما عت عوام کی ملکیت ہو تی ہے اور عوام کی امنگوں کی تر جما نی کر تی ہے اس بنا ء پر قوم کی نمائند گی کا حق رکھتی ہے پا کستان میں 200خا ندانوں کے 1300بندے ہر دور میں دولت کے بل بو تے پر پارٹیاں بدل کر حکومت میں آتے ہیں اور حکومت کر تے ہیں سیا سی جما عتوں پر بھی چند خا ندانوں اور گھرانوں کا پکا قبضہ ہو تا ہے کیونکہ وہ پیسہ خر چ کر تے ہیں اور حکومت میں آکر کما تے ہیں سیا سی جماعت میں کارکن اور ووٹر کی کوئی حیثیت نہیں ہو تی قوم کی نمائیند گی کا حق قوم کو کسی نے نہیں دیا چنا نچہ خبروں میں جب قوم کا نا م آتا ہے ہم کو یقین نہیں آتا کہ یہ قوم کے جذبات ہیں کیونکہ جو لوگ قوم کا نا م لیتے ہیں ان لو گوں کو قوم کی نما ئند گی کا کوئی حق نہیں یہ محص زبا نی دعویٰ ہوتا ہے۔