دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔”آر ایچ سی شاگرام“
گا?ں شاگرام پاکستان کے دور افتادہ ضلع چترال اپر اور چترال اپر کے دور افتادہ تحصیل تورکھو کا دارالحکومت ہے۔تحصیل تورکھو افغانستان کی سرحد پہ ہے یہاں سے آگے پاک سر زمین ختم ہوتی ہے یہ تحصیل پسماندگی میں اپنی مثال آپ ہے۔یہاں پہ نہ ڈھنگ کی سڑک ہے نہ پینے کا پانی نہ اچھا خاصا تعلیمی ادارہ۔۔۔ لے دے کے صحت کا ایک مرکز ہے جس کا ذکر ہو رہا ہے۔تحصیل تورکھو کے لیے آج سے 15 سال پہلے پختہ سڑک کا خواب دیکھا گیا تھا وعدہ ہوا تھا فنڈ آ? ٹھیکداروں نے خرد برد کیا لیکن حکومت نے ان کو انعام سے نوازا وہ دھندناتے پھر رہے ہیں ان کی چمکتی گاڑیاں قوم کے خون پی کرحاصل ہو?ی ہیں اور یہ دنیا کا واحد راستہ ہوگا جو 15 سال میں دو کلو میٹر بنا ہے وہ بھی ناقص ہے۔مذکورہ تحصیل کیلیے کیبل بچھانے کا کام شروع ہوا اس کے ساتھ تحصیل موڑکھو مستوج وغیرہ میں کام شروع ہوا وہ مکمل ہو? مگر تورکھو میں کو?ی بھی نیٹ ورک نہ ہونے کے برابر ہے بنکوں میں اے ٹی ایم مشینیں نصب ہیں مگر بند ہیں ملک میں ہر کہیں دفتری کام آن لا?ین ہیں مگر یہاں کے طلبا اور دفتری لوگ دربدر پھر رہے ہیں۔بجلی نہیں ہے۔۔کہیں کہیں گا?ں گا?ں نجی سطح پر این جی اوز کی مدد سے منی بجلی گھر تعمیر ہو? ہیں۔جن سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ گھروں کو روشنی دیتی ہے باقی موبا?ل تک چارج نہیں ہوتے۔یہ باونڈری میں موجود تحصیل کی حالت زار ہے حالانکہ یہ مراعات یافتہ ہونا چاہی?۔اس کے گا?ں گا?ں وطن پر قربان ہونے والے شیر دل سپوتوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہیں۔وطن کی مٹی اس کے باشندوں کی آنکھوں کا سرما ہے۔تحصیل میں حکومت نے ایک صحت سنٹر بنا?ی یہ 90 کے عشرے کی بات ہے اچھی خاصی عمارت بن گ? اگر یہ بھی حکومت کے رخم و کرم پر ہوتی تو آج یہاں کے درو دیوار پہ حسرت برس رہی ہوتی عمارت خستہ ہوتی اور حکومتی عملے کیانتظار میں ویران ہوتی شکر ہے کہ آغا خان ہیلتھ سروس اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا۔ایم او یو سا?ن ہوا اور اغا خان ہیلتھ سروس نے صحت کی سہولیات فراہم کرنے پر راضی ہو?۔۔آج یہ ار ایچ سی فعال ہے کام کر رہا ہے۔مجھے چند دن پہلے اپنی بچی کے ساتھ وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔میں نے وہاں ہل چل دیکھا۔ خدمت دیکھا۔ ڈیوٹی دیکھا۔۔وارڈ میں مریض مسیحا کے منتظر نہیں ہیں مسیحا ان کے سرہانے کھڑے ہیں۔سسٹم ایک حد تک کمپیوٹیراز ہے اگرچہ فیسیں بہت بھرنے پڑتے ہیں لیکن کام کے عوض بھرنے پڑتے ہیں مریضوں کو بنیادی سہولیات دی جاری ہیں میری مریض کے ساتھ اٹنڈنس تھے مجھے کہیں جانا نہ پڑا البتہ ہیڈ نرس نے نہایت شا?ستہ اور ان پڑھ دیہاتی کو سمجھانے کے انداز میں مجھ سے ایک فارم پر دستخط کرا?ی میں فارم پر اپنا دستخط کر دیا۔ناچیز کوصوبے کے بڑے ہسپتالوں میں جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے قطاروں میں کھڑے ہونے، منت سماجت کرنے اور ذلیل ہونے کا بھی اتفاق ہوا ہے اس لیے یہاں کا عملہ شاباش کا مستحق ہے وہ اپنے کام احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے حکومتی اداروں میں ایک المیہ یہ ہے کہ پسماندہ علاقوں میں کو? ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں ہوتا اگر خواہ مخواہ تعینات ہو جا? تو یہ اس کو سزا کے طور پر لیتا ہے لیکن مذکورہ ار ایچ سی کا عملہ اس جھنجھٹ سے بالا ہیں۔اے کے ایچ ایس پی ان کو ٹھیک ٹھاک سولت مہیا کر رہی ہے۔مجھے کسی ڈاکٹر سے ملنے کا موقع نہیں ملا البتہ ارہ ایچ سی کے چیرمین ریٹا?رڈ استاد نصیر الدین صاحب سے چند غیر رسمی باتیں کرنے کا موقع ملا ان کو سن کر اچھا لگا انھوں نے بتایا کہ میں عوام کی طرف سے اس ہسپتال کا ذمہ دار ہوں میں اس کے عملے کی خدمت کے لیے ہوں میں رضا کار ہوں اگر کہیں ہسپتال میں ایمرجنسی ہو تو میں اپنے رضا کاروں کے ساتھ حاضر ہوتا ہوں ہسپتال کے عملے کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوتا ہوں میں ان کی میٹنگوں میں حاضر ہوتا ہوں اور ان کے عوام کے اور سرکار کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہوں انھوں نے بتایا کہ ہسپتال میں تین مرد ڈاکٹرز (میڈیکل آفیسرز)اور ایک زنانہ میڈیکل آفیسر موجود ہے جو ہمہ وقت عوام کی خدمت میں لگے رہتے ہیں 5 نرسس ہیں ایک ہیڈ نرس ہے ٹیکنیشنس ہیں دا? اور کلاس فور ہیں سکیوریٹی گارڈ ہیں ہسپتال کے اندر میڈیسن مہیا کی جاتی ہیں ٹیسٹ (خون کا، یورین کا، ای سی جی، ایکسرا شوگر وغیرہ کے ٹسٹ) ہوتے ہیں۔خواتین کے کیسس بہت اطمنان بخش ہیں زچہ و بچہ کو بنیادی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ایمبولنس ہے۔وارڈوں میں مریض کو سہولیات ہیں۔البتہ انھوں نیزور دے کر بلکہ دھا? کے طور پر کہا کہ اس ہیلتھ سنٹر میں ماہر امراض خواتین زچہ و بچہ(گا?نیکالوجسٹ) کی اشد ضرورت ہے۔علاقہ پسماندہ ہے۔ موسمی حالات سخت ہیں۔سڑکوں کی حالت مخدوش ہے اس وجہ سے ایمرجنسی کی صورت میں مریض کے زندہ بچنے کے امکانات نہیں ہوتے ہیں ان کو بونی چترال تک پہنچانا ممکن نہیں ہوتا اکثر روڈ بند ہونے کی وجہ سے مریض کو چارپا? پہ ڈال کے کندھوں پہ اٹھاکے ہسپتال پہنچایا جاتا ہے اور آگے ریفر کرنے کی صورت میں مریض کا بچنا ممکن نہیں ہوتا اور یہاں پر وہ سہولیات میسر نہیں ہوتے جن کو مریض کی ضرورت ہوتی ہے۔۔آر ایچ سی شاگرام تحصیل تورکھو اور تریچ یوسی کے عوام کے لیے ایک مسیحا سنٹر ہے مجھے ان کے عملے پہ فخر ہوا اور خدمت خلق کیاس جذبے کو داد دینا پڑا۔قوم ان جذبوں سے پنپتی ہیں۔۔نصیرصاحب بجا طور پر ان خدمت گاران قوم کی تعریف کرتے ہیں۔ قوم کے یہ نوجوان اچھے ہیں۔کسی بھی محکمے میں اگر سسٹم move کرے تو اس کی ساکھ بنتی ہے ہمارے ہاں کم کم ایسا ہوتا ہے دنیا میں (ریپٹ سروس سسٹم) دیکھنے کو ملتا ہے محمکہ صحت کو اس سسٹم کی اشد ضرورت ہے اس لیے کہ کبھی کبھی ایمرجنسی یہاں پہ نافذ ہوتی ہے اس لیے عملے کو مستعد اور تیار رہنا پڑتا ہے۔۔میں غریب عوام کا ایک فرد ہوں اگر مجھے ان کی سروس اچھی لگی ہے تو ضرور ان کی خدمت عوام تک پہنچتی ہے صرف صاحب لوگوں تک محدود ہماری بدبختی یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات