دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات ”ہم قرض کس ل? لیتے ہیں“
چند دن پہلے پشاور بی آر ٹی میں سفر کر رہا تھا کہ ایک نوجوان سے ایک بوڑھے نے پوچھا بیٹا!اس بی آر ٹی سے حکومت کو کو?ی فا?دہ ہوتا ہے کہ نہیں؟۔ اس نوجوان نے اپنی معلومات جتانے کے انداز میں کہا بابا! روزانہ ہزاروں لوگ اس میں سفر کرتے ہیں۔۔بوڑھا خاموش ہوگیا۔میں ویسے بھی خاموش تھا پھر میری سوچوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔یہ موٹر وے، یہ ٹول ٹیکس، یہ سیاحت اس پہ ٹیکس،یہ انکم ٹیکس، یہ بجلی، گیس، پانی۔۔۔ان کار خانوں پر ریوینیو، یہ آمدن پر ٹیکس گنتی میں اور بھی ک? مفروضے آ?۔برآمدات آ?۔بیرونی سرمایہ کاری آ?ی۔۔۔یہ سب ریاست کی دولت ہیں اس کے خزانے میں جمع ہوتے ہیں۔ریاست سڑکیں بناتی ہے لیکن اس سہولت کے ل? لوگوں سے معمولی رقم جمع کرتی ہے۔اس طرح بہت سارے زرا?ع ہیں جو ریاست کی دولت ہیں یہ دولت ریاست کی ترقی اس کے باشندوں کی خوشحالی پہ نہایت دیانت داری سے خرچ ہوتی ہے۔اس کے کارندوں کا ایک خاص معاوضہ مقرر ہوتا ہے کسی کو ناجا?ز فا?دہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی تب جاکے ریاست کے پاس اثاثہ جمع رہتا ہے۔پیسہ گردیش کرتا ہے۔ترقی آتی ہے۔لوگ مطم?ن ہوتے ہیں۔۔ہم نے سنا ہے کہ آ?ی ایم ایف کا بظاہر منشور ہے کہ دنیا کا کو?ی ملک مالی لحاظ سے کمزور ہو تو اس کو دعوت دیتا ہے کہ میں تمہیں قرض دونگا تم اپنے پا?ں پر کھڑے ہوجا?۔۔ایسا ملک اس کی شرا?ط مانتا بھی نہیں کہتا ہے بس قرض دے دو اور مقررہ وقت پر واپس لے لو۔میں ترقی کروں نہ کروں تمہارا مقروض نہیں بنوں گا۔۔۔لیکن جو ملک فریاد لے کے اس کے پاس جاتا یے تو اس کی شرا?ط آنکھیں بند کرکے ماننا پڑتا ہے اس ل? کہ وہ وقت مقررہ پر قرضہ واپس کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔اس کے پاس کو?ی منصوبہ، کو?ی پلان اور کو?ی ترجیحات نہیں ہوتے۔وہ قرض لیتا ہے اور اس سے ملک و قوم کو کو?ی فا?دہ نہیں ہوتا اس کے بنیادی مسا?ل حل نہیں ہوتے اس ل? اس جال میں پھنسنا ہوتا ہے یہ وہ بدقسمت ملک ہوتا ہے جو کشکول لے کے پھرتا ہے۔آ?ی ایم ایف کے سامنے ہاتھ جوڑنا پڑتا ہے۔۔ہمارے بڑے ایسا کرتے ہیں۔۔ہمارے ملک میں عیاشیاں اس حد تک ہیں کہ ہمارا ریوینیو، ہماری آمدن اس طبقے کی شاہ خرچیوں کے ل? کم پڑتے ہیں۔ہم نے آفت کے نام پہ مدد لی۔دس ارب سے اوپر ڈالر آ?۔کورونا کے نام پہ اربوں ڈالر مدد آ?ی۔زلزلے کے نام پہ مدد آ?ی۔دوست ممالک نے انسانی ہمدردی دیکھا?ی لیکن سب سراپا سوال ہیں کہ ڈالرکہاں جاتے ہیں۔اخراجات اور بحالی کا تقابلی جا?زہ لیا کیوں نہیں جاتا۔۔عیاشیوں کو مد نظر کیوں نہیں رکھا جاتا۔ملک کی روزمرہ آمدن اربوں میں ہے اگر اخراجات اس حد تک رکھے جا?یں قناعت دیکھا?ی جا?۔قوم بہت ساری سرگرمیوں کو فضولیات میں شمار کرتی ہے۔یہ بے وقت الیکشن، یہ دھرنے، یہ جلسے جلوس، یہ ہا? ہو قوم کے نزدیک فضولیات ہیں اس ل? کہ ان سے کو?ی مسا?ل حل نہیں ہوتے۔قوم سراپا سوال ہے کہ اس سال کی آفت میں سیاسی لیڈروں نے بہت ڈھنڈورا پیٹا کہ یوں امداد آ?ی۔ایک نشست میں اتنے روپے جمع ہو?۔دوست ممالک نے یوں امداد دی لیکن ہمارا زخیرہ 3اعشاریہ 5 ارب رہ گیا ہم ڈیفالٹ کر رہے ہیں اللہ ہماری مدد فرما?۔ ملازمیں کی تنخواہوں میں سے خاطر خواہ کٹوتی کی گ?ی۔لیکن مصرف کا پتہ نہیں۔اب آ?ی ایم ایف کی وفد سے ہمارے مذاکرات ہو رہے ہیں۔بجلی کی قیمت زیادہ کرو مجال ہے کہ ہم نہ مانیں۔تیل گیس کی قیمتیں بڑھا? ہم yes ہی کہہ سکتے ہیں۔ملازمین کی تنخواہیں گھٹا? پنشن ختم کرو ہم جی سر ہی بولیں گے ورنہ قرض نہیں ملے گا۔ آ?ی ایم ایف کی کیا پڑی ہے کہ اشرافیہ سے کہدے کہ اپنی عیاشیاں کم کرو۔مافیاز پہ کنٹرول کرو۔اس کو کیا پڑی ہے کہ قیمتی گاڑیوں کو مفت پٹرول اور بجلی کی سہولت نہ دو۔۔۔ اپنا ٹیکس نظام درست کرو۔۔اگر بحیثیت قوم ہم میں قربانی کا جذبہ ہو تو ایک ہی رات میں سارے قرضوں سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تنخواہ دار اپنی تنخواہ پیش کرے۔اشرافیہ ایک دو دن کے ل? اپنی عیاشیاں کم کرے۔مفت خور عارضی طور پر مفت خوری سے توبہ کریں۔آخر یہ ملک کس کا ہے۔۔ہمیں شرم آنی چاہی?۔۔مقروض کو?ی ایک فرد نہیں پورا پاکستان ہے۔۔صدر وزیر اعظم مقروض ہیں فوج پولیس مقروض ہے پارلیمنٹرین مقروض ہیں ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے لیکن مقروض تو شرمندہ ہوتا ہے مقروض فکرمند ہوتا ہے مگر ہم ایسا کچھ نہیں۔۔۔آ?ی ایم ایف اس ل? قرض دیتا ہے کہ ہم اپنے مسا?ل حل کریں۔ ہمیں مسا?ل کے حل کی پرواہ نہیں تو اس کی ماننا پڑے گا۔۔افراد سے لے کر قوم تک قرض مجبوری میں لیا جاتا ہے ضرورت کے ل? لیا جاتا ہے۔پھر قرض اپنا پیٹ کاٹ کر ادا کیا جاتا ہے۔چترالی میں ایک کہاوت ہے ”وام چھیار وامدار بریار“ بے شک قرض دار مر جا? لیکن اپنا قرض ادا کرکے مرے“ یعنی قرض کی ادا?یگی کے ل? اگر جان قربان کرنی ہو تو کرے۔مگر ہمارے قرض لینے کا انوکھا نداز ہے یہ انداز کہیں ہمارا نام و نشان مٹا نہ دے۔۔اللہ ہمارے حال پہ رحم فرما?