دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”روجی اور استخوان۔۔۔پشاور میں آج شام“
پشاور ایک شہر ہی نہیں ایک یاد ایک احساس اورایک پہچان ہے۔۔اس کی تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ کرنے والے ”پراشپورا“ سے ”پشاور“ تک لے آتے ہیں توصدیاں اس کے پیٹ میں دفن ہیں یہ کتنوں کی ماں رہا ہے کتنے اس کی خاک میں ابدی نیند سو رہے ہیں کتنوں نے یہاں پہ جنم لی اور یہاں کی خاک اوڑا۔۔کیا کیا دور آ? گ?۔لیکن سوال یوں ہے کہ اس احساس کی یادگار کو ہم احساس تک لیں گے یا اس کو اپنی تہذیب اپنی زندگی اور اپنے کردار کی یادگار کے طور پر محفوظ رکھیں گے۔۔میں فضل اکبر بھائی اور ثناء اللہ پرنسپل ہا?ی سکول بمبوریت کل شام پشاور پہنچے تو سستانے کے بعد کھانے کی فکر ہو?ی میں نے تجویز دی کہ”ڈگی“ میں جاکے روایتی پلا? ”استخوان“ کے ساتھ کھاتے ہیں۔وہاں پہنچے تو رش کہیں نہیں تھا۔ارڈر میں جب میں نے ”استخوان“ نام کا اضافہ کیا تو بیرے کی ہنسی پھوٹی بچہ مسکراتے ہو? گیا کھانا لایا۔۔سوال اس روایتی شہر کی روایات کا ہے۔دنیا میں جتنی بھی تاریخی شہر اور جگہے ہیں وہ ان قوموں کی تاریخ اور تہذیب کی ”زندہ مثالیں“ ہیں وہ عمارات، وہ پارکیں، وہ سیرگاہیں، وہ گلی کوچے اسی طرح برقرار ہیں ورنہ تو ”احرام مصر، روما کی عمارات، روضہ تاج محل وغیرہ“ کب کے ڈھا چکے ہوتے اور ان کی جگہ ن? ٹیکنالوجی آتی۔مگر ان کی بھر پور حفاظت کی جاتی ہے۔پشاور بھی ہماری تاریخی ورثہ ہے اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ہم کھانا کھا کے باہر آ? تو قصہ خوانی بازار میں روایتی رش تھا لیکن صفا?ی ستھرا?ی دیکھ کر افسوس ہورہا تھا۔کوڑا کرکٹ کیلے کے چھلکے کاغذ کے ٹکڑے بد بو پانی کیا کیا نہیں۔کہتے ہیں کسی زمانے میں پشاور سات دروازوں کے اندر تھا دروازوں کے نام لوگوں کو یاد ہیں۔۔شہر پھیلا ہے لیکن ہماری تاریخ ان سات گیٹوں کے اندر محفوظ ہونا چاہی?۔”روایتی پشاور“ کو ان گیٹوں کے اندر محفوظ کیا جا? لوگ ادھر صرف”پشاور“دیکھنے آی?ں۔اس کے اندر پشاور کی روایتی تہذیب ہو روایتی کھانے ہوں وہ کڑک چا? وہ گرم قہوہ وہ کڑائی وہ خالص ہنکو اور پشتو زبان۔۔کیا یہ سب کچھ ممکن نہیں کیا ہمارے حکمران ہمارے پشاور کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔پشاور میں داخل ہوکر اس سیہمارے جیسے روحانی وابستگی رکھنے والوں کو دلی سکون ہوتا ہے۔۔پشاور کے اصل باشندے اپنی روایتی مہمان نوازی شائستگی اور سیدھا سادا پن میں مصنوعیت نہ لا?یں ان کو احساس ہو کہ وہ ایک روایتی شہر کے امین ہیں۔شہر میں بلدیہ لوکل کونسل اور شہر کے انتظامیہ پر لازم پڑتا ہے کہ وہ اس کی حفاظت اس کی صفا?ی ستھرا?ی کا خیال رکھ کر اس کے نام کی لاج رکھیں۔ہم نے استخوان کا مزہ لیا یہ اپنی جگہ لیکن ہمارے بڑے جس پشاور کے قصے لے لے کر سناتے تھے ان میں کہیں جھول آتا دیکھا?ی دیتا ہے۔پشاور کے ہم امین ہیں ان کی گلیاں ان کے بازار ان کی قدیم عمارتیں سب کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔بے شک اس میں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں ان میں سے ہر ایک کو اس کی صفا?ی کا خیال نہ ہو مگر اس کے پیچھے اگر انتظامیہ کی طاقت ہو تو اہستہ اہستہ ان کو بھی اپنے اخلاقی فرا?ض کی عادت بن جا? گی اور ہمارا پشاور ایک ”شناخت اور پہچان“ بن جا? گا
تازہ ترین
- ہومڈپٹی کمشنر اپر چترال محمد عرفان الدین کے دفتر میں مختلف آفات کے سبب فوت ہونے والوں کے لواحقین میں امدادی چیک تقسیم کئے گئے
- ہوملویر چترال میں حفاظتی ٹیکے کا عالمی ہفتے کا آغاز آگہی واک سے کردیا گیا
- ہومداد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔عبد الغنی دول ما ما
- سیاستتحصیل کونسل چترال کے اجلاس میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے حالیہ بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی اسیسمنٹ کی تاریخ میں کم ازکم دس دن کی توسیع کا مطالبہ کرتے ہوئے موجودہ طریقہ کار پر بھی عدم اطمینان کا اظہا رکیا گیا
- ہومترال شہر اور مضافات کے سینکڑوں تندورمالکان نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ چترال کی علاقائی مشکلات اورحالات کو پیش نظر رکھ کر روٹی کا پرانا نرخ بحال کردے
- Uncategorizedداد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔چارویلو رحمت ولی خان مر حوم
- ہومحالیہ بارشوں اور قدرتی آفات کے حوالے سے چترال سے تعلق رکھنے والے ایم این اے غزالہ انجم وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملاقات کرکے اہالیان چترال کی مشکلات سے آگاہ کیا۔
- ہومحالیہ بارش اور برفبار ی کے نتیجے میں عوامی مشکلات کے بارے میں پارٹی کی ہائی کمان سے رابطہ کرکے فوری طور پر ریلیف پیکج کی فراہمی کا مطالبہ ۔ عبدالولی خان عابد ایڈوکیٹ
- ہومصحافی کسی بھی علاقے میں عوام کے آنکھ اور کان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔۔ ڈسٹرکٹ پولیس افیسر لویر چترال افتخار شاہ
- ہوملویر چترال کے دروش ٹاؤن کے گاؤں شیشی آزوردام،حفیظ آباد، جزیر دوری میں کئی دنوں کی مسلسل بارش کی وجہ سے زمین سرک گئی جس کے نتیجے میں تین گھر وں سمیت ایک جامع مسجد مکمل طور پر مٹی تلے دب گئے