داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔نا زک دَور
پا کستان اپنی تاریخ کے نا زک دور سے گذر رہا ہے یہ جملہ ہم نے بھی آپ نے بھی کروڑ بار سنا ہے یا انکشاف کرنے والوں کو بولتے اور بتا تے ہوئے دیکھا ہے رات ایک ٹی وی چینل پر ایک بار پھر یہ جملہ سننے کو ملا تو شاہ جی نے کہا بھا ئی خدارا ہمیں معاف رکھو اس جملے کو درست کرو، درست جملہ یہ ہے کہ تاریخ کا نا زک دور پاکستان سے گذر رہا ہے اور گذرتے ہوئے اس کے انجن میں فنی خرا بی آگئی تھی اس لئے 75سالوں سے پا کستان میں رکا ہوا ہے یہ نا زک دور پا کستان سے گذر کر آگے بڑھیگا تو پا کستان ترقی، خو شحا لی اور استحکا م کی طرف اپنا سفر شروع کرے گا نا زک دور بہت کار آمد تر کیب ہے علا مہ اقبال کے اشعار کی طرح یہ تر کیب ہر مکتب فکر کے کا م آتی ہے ہم نے کمیو نسٹوں کو بھی کلا م اقبال سے مدد لیتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے قدامت پسندوں کو بھی علا مہ اقبال کے اشعار سے مثا لیں دیتے ہوئے پا یا ہے جمہوریت کے علمبر دارجب مائیک پر آتے ہیں تو پکار اُٹھتے ہیں آزادی جمہور کا آتا ہے زما نہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو، ان کے مقا بلے میں آمریت کی حما یت کرنے والے جب ما ئیک سنبھالتے ہیں تو اپنی تقریر اس شعر سے شروع کرتے ہیں گریز از طرز جمہوری غلا م پختہ کار ے شو کہ از مفز دوصد خر فکر انسا نی نمی آید تم جمہوریت کے طرز اسلوب سے دور بھا گو اشرافیہ کی غلا می قبول کرو کیونکہ دوسو گدھوں کو یکجا کیا جا ئے تو ان کے دما غ سے انسا نی سوچ کو جنم دیتا نہیں پاؤ گے یہی حال نا زک دور کا ہے حکومت اور حزب اختلاف ہمیشہ ایک دوسرے کی مخا لفت میں سر پیر ما رتے ہیں مگر جہاں نا زک دور کا ذکر آئے دونوں یک زبان ہو کرکہتے ہیں ہمارا ملک نا زک دور سے گذر رہا ہے حزب اختلا ف کا نقطہ نظر یہ ہو تا ہے کہ ہر دور کی، مو جودہ حکومت اس نا زک دور کا مقا بلہ نہیں کر سکتی جبکہ حکومت ہمیں قائل کرنے کی کو شش کر تی ہے کہ جب تک پا کستان نا زک دور سے گذر رہا ہے حزب اختلا ف کو خا موش رہنا چاہئیے، گویا ہر ایک کی نظر میں نا زک دور کے جدا جدا تقا ضے ہیں علمائے کرام کا موقف یہ ہے کہ ملک میں شریعت کا فوری نفازذ ہونا چاہئیے کیونکہ ملک نا زک دور سے گذر رہا ہے، دہریوں کا اس بات پر اصرار ہے کہ مذہب کو سیا ست سے الگ کرنا چا ہئیے کیونکہ ملک نا زک دور سے گذر رہا ہے، مذہبی سوچ اور فکر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ مذہب کو سیا ست سے الگ کیا گیا تو ملک نا زک دور سے چنگیز خا ن کے عہد ستم میں داخل ہو جا ئے گا دلیل علا مہ اقبال کا شعر ہے؎
نظام پاد شا ہی ہو یا جمہوری تما شا ہو
جدا ہو دین سیا ست سے تو رہ جا تی ہے چنگیزی
حالات حا ضرہ کے دو بڑے مو ضو عات کرپشن اور انتخا بات بھی ”نا زک دور“ کی زد میں رہتے ہیں جو لو گ کر پشن کے خلا ف بولتے ہیں وہ دلیل دیتے ہیں کہ پا کستان نا زک دور سے گذر رہا ہے جو لو گ کرپشن کو نا گزیر سمجھتے ہیں ان کا موقف بھی یہی ہے کہ ملک نا زک دور سے گذر رہا ہے سیا سی لیڈروں میں جن کو انتخا بات میں خیر کا پہلو نظر آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ فوری طور پر انتخا بات ہونے چاہئیں کیونکہ ملک نا زک دور سے گذر رہا ہے، جن لیڈروں کو فوری انتخا بات میں واضح شکست نظر آتی ہے وہ دلیل دیتے ہیں کہ انتخا بات ملتوی کئے جا ئیں کیونکہ ملک نا زک دور سے گذر رہا ہے گویا نا زک دور دونوں کے کا م آجا تا ہے ہمارا خیال ہے کہ قدرت حق سے اگر کبھی زندگی کے کسی موڑ پر نا زک دو رسے ہماری ملا قات ہوئی تو اس بد بخت سے پو چھینگے کہ میاں تم ہر وقت پا کستان کو اپنے سینے پر مونگ دلنے اور لاؤ لشکر سمیت سینے کو چیر تے ہوئے گذر نے کی غیر مشروط اور لا محدود اجا زت کیوں دیتے ہو، تم نے کبھی ہندوستان، ایران، تر کی، روس، چین یا جا پا ن کو اپنے اوپر سے گذر نے کی اجا زت کیوں نہیں دی؟ لیکن اب تک نا زک دور سے ہماری ملا قات نہیں ہوئی اخباری بیا نا ت، لیڈروں کی تقاریر، سما جی خبروں اور معا شرتی تجزیوں، تبصروں کو دیکھ کر یہ بات قرین قیاس لگتی ہے کہ پا کستان نا زک دور سے نہیں گذر رہا بلکہ نا زک دور نے پا کستان کے سینے پر اپنا راستہ بنا لیا ہے اور ہر وقت اس شاہراہ پر دندنا تا پھر رہا ہے شا ہ جی کی بات میں صدا قت ہے نا زک دور پا کستان سے گذر تے ہوئے یہاں ٹھہر گیا ہے 75سالوں سے نا زک دور اسی سٹیشن پر کھڑا ہے۔