داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔با غوں کا شہر
پشاور کو وسطی ایشیا سے لیکر جنو بی ایشیا تک چلنے والے قافلوں کے لو گ با غوں کا شہر کہتے تھے کیونکہ شہر کے اطراف میں بے شمار باغا ت تھے پھلوں اور پھو لوں سے لدے ہوئے با غا ت شہر کی سیر کرنے والوں کو مسحور کر دیتے تھے یہ زیادہ دور کی بات نہیں 1850ء تک پشاور کے باغا سب سلا مت اور قائم تھے 1860ء کے بعد انگریزوں کا دور آیا تو انہوں نے اپنا پہلا کیمپ علی مرد ان باغ میں لگا یا دوسرا کیمپ ڈبگری باغ میں لگا یا گویا وسطی ایشیا کے ترک تا جروں کی طرح جنو بی ایشیاء سے آنے والے گورے فو جیوں کو بھی پشاور میں ہر طرف باغ دکھا ئی دیئے تو اردو محا ورے کی رو سے ان کا دل باغ باغ ہوا دنیا میں ہر شہر اور گاوں نے تر قی کی ہے تر قی کا مطلب یہ ہے کہ 200سال پہلے اگر 10باغ تھے تو 200سال گذر نے کے بعد ان باغوں کی تعداد 20ہو نی چاہئیے لیکن پشاور کے نصیب میں باغوں، درختوں، پھو لوں اور پھلوں کی جگہ سیمنٹ، سریا اور پلا سٹک لکھا تھا پشاور کو پلا سٹک کی بے پنا ہ دولت ملی، سیمنٹ، سریا اور لو ہا ملا، درختوں کی جگہ پلا زوں نے لے لی اور باغوں کی جگہ بس اڈوں نے لے لی ڈاکٹر عادل ظریف اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا دکھ ہے کہ پشاور کا قدیم ورثہ ختم ہو چکا ہے اور بچے کچھے آثار تیزی کے ساتھ مٹا ئے جا رہے ہیں اخبار بین حلقوں کو یا د ہو گا 2005ء میں پشاور شہر میں سیٹھی ہاوس ایک سر ما یہ دار کو فروخت کر دیا گیا سر ما یہ دار نے اُس کو مسمار کر کے پلا زہ تعمیر کرنے کا نقشہ تیار کیا، شہریوں کی تنظیمیں حر کت میں آگئیں، صو بائی حکومت نے سر ما یہ دار کو منہ ما نگی قیمت کروڑوں میں ادا کر کے سیٹھی ہاوس کو عجا ئب گھر بنا یا اور سیا حوں کے لئے کھول دیا اگر شہر یوں کی تنظیمیں حر کت میں نہ آتیں تو آج سیٹھی ہاوس کی جگہ 20منزلہ پلا زا نظر آتا زما نے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے، آج عام شہر یوں کو پشاور میں بمشکل پا نج باغوں کے نا م آتے ہیں ان میں سے دو باغ دکھا ئی دیتے ہیں قلعہ با لا حصار کے سامنے سے گذر تے ہوئے اگر آپ کسی سیا ح کو بتائینگے کیہ یہاں نذر باغ ہو ا کر تا تھا تو وہ حیرت میں ڈوب جا ئے گا سڑک کے ایک طرف جنا ح پا رک کا محدود سارقبہ دکھا ئی دیگا جو دونوں اطرف سے پکی عمارتوں اور دکا نوں میں گھرا ہوا ہے جہاں درختوں کو کا ٹ کر جلسے کا سٹیج بنا یا گیا ہے آپ سیاح کو بتا ئینگے کہ اس جگہ کو انگریزوں نے کننگھم پارک کا نا م دیا تھا قیا م پا کستان کے بعد اس کو جنا ح پارک کا نا م دیا اب سر بفلک پلا زوں کے ہجوم میں اس کو ڈھونڈ نا پڑ تا ہے علی مرد ان باغ کو آپ ڈھونڈ نے نکلینگے تو جگہ جگہ آپ کو روڈ بند کرنے والی رکا وٹیں اور دیوار یں نظر آئینگی بڑی مشکل سے آپ علی مردان کے گھر سے باغ تک کا سفر طے کر ینگے تو معلوم ہو گا کہ علی مردان کے گھر کو انگریزوں نے گورنر ہاوس بنا یا اور باغ کے بڑے حصے کو بنگلوں میں تبدیل کیا جو تھوڑا سا حصہ بچ گیا اس کا نا م بدل دیا اب یہ خا لد بن ولید پا رک کہلا تا ہے پارک شاید باغیچہ کو کہتے ہیں یہاں باغیچہ والی کوئی خو ب صورتی بھی نظر نہیں آتی بہر حال غنیمت ہے کچھ تو ہے ہمارے لئے نہ سہی، سیا حوں کے لئے نہ سہی ارد گرد بنگلوں کے خوش نصیب مکینوں کے لئے چھو ٹی سی تفریح گاہ بچ گئی ہے اور پشاور کے شاندار ما ضی کی یا د دلا تی ہے 80سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کے لو گ مل جا ئیں یا کو ئی تحقیقی کتاب مل جا ئے تو پتہ لگتا ہے کہ یہاں پشاور کا سب سے مشہور باغ ہوا کر تا تھا یہاں سے مڑ کر پرا نے شہر کے مشہور دروازہ ڈبگری گیٹ کا رخ کریں تو قدیم پشاور کا نقشہ ڈبگری دروازہ کے پا س بہت بڑے باغ کا پتہ دیتا ہے مگر آپ کے سامنے کنکریٹ کا بنا ہوا جنگل نظر آتا ہے ہر درخت کے بدلے سیمنٹ کی دیوہیکل دیوار ہے آپ کسی پشوری سے پو چھیں کہ باغوں کے شہر میں باغ کدھر ہے؟ وہ آپ کو لیکر شاہی باغ جا ئیگا یا وزیر باغ جا ئیگا، دونوں جگہوں پر آپ کو بتا ئینگے کہ یہ باغ بہت بڑا تھا شہر میں تو سیع ہوئی تو باغ کا رقبہ سکڑ گیا اب پشاور کو باغوں کا نہیں صرف دو آدھے آدھے باغوں کا شہر کہا جا نا چاہئیے اردو میں اس کے لئے ترقی معکوس کی تر کیب آتی ہے باغوں کا شہر اب پلا زوں کا شہر بن گیا ہے۔