شہزاد محی الدین۔۔۔ قائد بے بدل، ایک عہد ساز شخصیت۔تحریر ،کمال عبد الجمیل
تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک چترال کی سیاست پر راج کرنے والے شہزادہ محی الدین انتقال کر گئے۔شہزادہ محی الدین وفاقی وزیر مملکت، نگرانی صوبائی وزیر، چار مرتبہ ممبر قومی اسمبلی، دو مرتبہ ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین اور ایک بار ضلع ناظم کی حیثیت سے چترال کی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں شہزادہ محی الدین سنیئر اور تجربہ کار سیاستدانوں میں شمار ہوتے تھے۔ شہزادہ محی الدین کی سیاسی اور قومی خدمات کا ہی نتیجہ تھا کہ اس حلقے کے عوام نے 2013میں انکے جانشین شہزادہ افتخارالدین کو کامیاب کرکے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کرکے شہزادہ محی الدین کے خدمات کا صلہ دیا۔
چترال کا انتخابی حلقہ حساس نوعیت کا ہے،یہاں کے ووٹرز بھی حساس ہیں، 14500مربع کلومیٹرز پر پھیلا ہوا یہ حلقہ دورافتادہ اور دوردراز علاقوں پر مشتمل ہے، جہاں آبادیاں دور دراز اور دشوار گزار وادیوں میں پھیلے ہوئے ہوں،ایسے حلقے میں انتخابات میں کامیابی اور طویل عرصے تک عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنا شہزادہ محی الدین کا غیر معمولی کارنامہ ہے۔
شہزادہ محی الدین شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے مگر وہ پوری زندگی عام لوگوں کیساتھ جڑے رہے، سخت محنت اور اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت اور مسائل حل کرنے کی وجہ سے اپنا مقام بنالیا۔ غیر معمولی صلاحیتیں،انتھک جدوجہداور خود کو خدمت کے لئے وقف کرنا انکی شخصیت کے نمایاں خصوصیات تھے۔ وہ سماجی محرکات اور نفسیات کو آسانی سے سمجھنے والے معاملہ فہم انسان تھے،لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے ماہر تھے اور بڑی آسانی سے اپنے سخت ترین مخالف کو اپنا دوست بنا لیتے۔ سیاسی میدان میں بد کلامی، زبان درازی، کسی کی دل آزاری اور عزت شکنی کرنے کے بالکل قائل نہیں تھے،دلائل اور حقائق کی بنیاد پرگفتگو کرنا انکا خاصہ تھا۔ انہوں نے چترال میں سماجی تفریق کی بنیاد پر سیاست سے خود کو دور رکھا کیونکہ انکا پختہ یقین تھا کہ سیاسی لیڈر کی عوامی خدمت اور انکا عوام کے ساتھ تعلق ہی آخر کار اسکی قیادت اور کامیابی کا پیمانہ ہوتا ہے اسلئے انکی تمام تر توجہ عوام کی خدمت اور عوامی مسائل کے حل پر مرکوز رہی۔
صاحب اقتدار اوربا اختیار شخصیت کے سامنے ببانگ دہل گفتگو کرنے کے حوالے سے شہزادہ محی الدین کی ایک پہچان تھی۔ کئی ایسے مواقع آئے جن میں شہزادہ صاحب نے اپنی صلاحیتوں اور انداز گفتگو سے سامعین کو حیران کردیا۔ 1986میں جشن شندور کے موقع پر صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق کے سامنے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے چترال کے مسائل اور مشکلات کا کھل کر تذکرہ کیا، انہوں نے روایتی طور پر تحریر شدہ تقریر پڑھنے کے بجائے مدلل انداز میں گفتگوکی اور بتایا کہ حیران کن طور پر حکومت نے ابھی تک چترال کو نظرانداز رکھا ہوا ہے۔قصہ کچھ یوں ہوا کہ شندور میلے سے کچھ ماہ قبل جب دروش میں سویئر کے مقام پر روسی جہازوں کی بمبار ی ہوئی تو اس وقت صدر مملکت جنرل ضیا ء نے چترال کے دورے کے موقع پر چترال سکاؤٹس کی تعداد میں اضافے کاوعدہ کیا تھا اور 6مزید ونگ بننے تھے، اس حوالے سے ایک وفاقی سیکرٹری نے موقف اپنایا کہ اس تعداد میں نصف لوگ چترال سے جبکہ نصف دیگر علاقوں سے بھرتی کئے جائینگے،یہ بات شہزادہ صاحب کو ناگوار گزری اور انہوں نے اپنے دل کی بات مدلل انداز میں صدر پاکستان کے سامنے کی۔ اس بہادرانہ تقریر پر صدر مملکت بھی اپ سیٹ نظر آئے اور وہاں پر ظہرانے میں شرکت کئے بغیر ہی واپس روانہ ہوگئے۔ کافی تگ و دو کے بعد شہزادہ صاحب چترال ایئرپورٹ میں دوبارہ صدر مملکت سے ملے اور اس بابت گفتگو کرنے کے بعد معاملہ رفع دفع ہوگیا اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ چترال سکاؤٹس میں میں 6ہزار جوانوں کی بھرتی ہوئی جو کہ صرف چترال کے باشندے تھے، یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب چترال کی آبادی 32ہزار گھرانوں پر مشتمل تھی اور ان میں سے 6ہزار گھرانوں کو باعزت روزگا ر کے مواقع مل گئے۔ در حقیقت یہ شہزادہ محی الدین اور چترال سکاؤٹس کے اس وقت کے کمانڈنٹ کرنل مراد کی چترال کے عوام کو روزگار فراہم کرنے کے لئے بہت بڑی خدمت تھی۔
جب شہزادہ محی الدین نوجوان بیوروکریٹ تھے تو اسوقت ریاست چترال کی مغربی پاکستان کے ساتھ ضم ہونے کے بعد سابق ریاست کے افسران کے ساتھ حکومتی برتاؤ سے وہ کافی نالاں تھے، اس دوران صوبہ (سرحد) کے گورنر چترال کے دورے پر آئے ہوئے تھے، چترال پولو گراؤنڈ میں شہزادہ صاحب نے گورنر کا ہاتھ پکڑ کر بغیر کوئی لگی لپٹی لگائے انہیں اس بارے میں بتایا، جو دل میں تھی وہ بات زبان پر لے آیا۔ظاہری بات ہے ایسی جرات کو برداشت کون کرسکتا ہے،اسلئے حکومت کی طرف سے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ شہزادہ صاحب کواپنی ایک ایسی سرکاری ملازمت چھوڑنی پڑی جسکا وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ہی حصہ بنے تھے۔ شہزادہ صاحب کہا کرتے تھے یہ میرے لئے سب سے اچھا ثابت ہو گیا۔ سرکاری ملازمت میں کہیں جاکر وہ سرکاری نوکر کی حیثیت سے ریٹائر ہوجاتے مگر اس فیصلے نے شہزادہ صاحب کو پہلے ایک کامیاب کاروباری شخصیت کے طور پر سامنے لایا اور اس کے بات وہ ایک صدابہار اور کامیاب سیاستدان کے طور ابھرگئے۔ کاروبار میں قدم رکھتے ہی انہوں نے سب سے پہلے ان غیر مقامی کاروباری طبقے کا سامناکیا جو چترال سے ٹمبر کو زیرین اضلاع لے جانے کے کاروبار پر قبضہ جمائے ہوئے تھے، شہزادہ صاحب کے اس اقدام سے کاروباری حلقوں میں بھونچال آگیا۔ان دنوں چترال کے لوگ اس طرح کاروبار میں نہیں آتے تھے بلکہ انکی زیادہ تر توجہ زراعت پر ہوتی تھی مگر شہزادہ صاحب کی طرف سے اٹھایا جانے والا یہ قدم گو کہ چھوٹا تھا مگر بعد ازاں یہ چترال کے مقامی لوگوں کے لئے ایک”جست“ ثابت ہوئی کیونکہ چترال کے مقامی لوگ بھی اسطرح کاروبار میں آگئے اور انہیں آمدن کے کئی متبادل ذرائع میسر آئے، لوگ کئی قسم کے کاروبار کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ ایک کاروباری شخصیت اور تعمیراتی شعبے سے منسلک ہونے کی وجہ سے شہزادہ صاحب کے کئے ہوئے کام اپنے معیار کی وجہ سے مثالی رہے جن میں سنگور بجلی گھر، موری اور کلکٹک ایری گیشن چینل شامل ہیں جنکی تعمیر کے دوران نہ ہی کوئی اضافی لاگت آئی اور نہ ہی مقررہ وقت سے زیادہ وقت لگا۔ انکا موازنہ اگر آج کل کئے جانے والے کاموں کیساتھ کیا جائے تو بدرجہا بہترین نظر آئینگے۔
جب سیاحت کے وزیر مملکت کی حیثیت سے شہزادہ صاحب نواز شریف کے کابینہ میں موجود تھے تو اس وقت مختلف فورمز میں اپنا مافی الضمیر کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔جب وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کا استعفیٰ منظور کرلیا تو اس کے بعد ایک پارلیمانی اجلاس میں شہزادہ محی الدین صاحب ان دو راکین میں سے تھے جنہوں نے وزیر اعظم سے کہا کہ آرمی چیف کا استعفیٰ منظور کرنا غلط تھا کیونکہ اس ا قدام نے اچھا تاثر نہیں چھوڑا حالانکہ اسوقت اجلاس میں موجود دیگر اراکین وزیرا عظم کی خوشنودی میں لگے ہوئے تھے کہ یہ بہترین اور بہادرانہ فیصلہ قرار دیتے رہے، بعد میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ شہزادہ صاحب کے ساتھی بتاتے ہیں کہ جب 1993میں جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت نواز شریف کی حکومت بحال ہو گئی تو اسوقت جب سارے لوگ وزیر اعظم کو مبارکباد دے رہے تھے تو ایک اجلاس میں شہزادہ صاحب نے نواز شریف سے کہا کہ حکومت کی بحالی سے مجھے بھی بہت خوشی ملی ہے مگر مجھے ڈر ہے کہ آپ پہلے والی غلطیاں دوبارہ نہ دہرائیں کیونکہ آپ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ ایک وزیر اعظم کے سامنے یہ بات کہنا واقعی میں بڑے دل گردے والے کا کام ہے۔ بعد کے حالات نے شہزادہ صاحب کی بات پر مہر تصدیق ثبت کی کہ واقعی وزیرا عظم سبق نہیں سیکھا تھا۔
ایک مرتبہ برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانا کے دورہ چترال کے موقع پر مہمان شہزادی نے شاہی قلعہ کا دورہ کرنا تھامگر عین وقت پر پتہ چلا کہ وقت کی کمی کا بہانا بنا کر بعض بیوروکریٹس شاہی قلعے کے دورے کو کینسل کئے ہیں، شہزادہ صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے شہزادی ڈیانا اور اسوقت کے برطانوی ہائی کمشنر نکولس بیرنگٹن کو بتایا کہ یہ عمل قابل قبول نہیں، آپ خود ایک دورہ شیڈول کئے ہیں اور اس علاقے کے سابق حکمران خاند ان کے لوگ آپکے استقبال کی تیاری میں ہیں اور آخری وقت میں آپ دورہ منسوخ کریں، اسکے بعد شہزادی ڈیانا نے شاہی قلعے کا دورہ کیا اور بعد ازاں شہزادی کا طیارہ غروب آفتاب کے بعد چترال سے اڑان بھری۔
شہزادہ محی الدین کی نظر میں سیاست طاقت اور اختیار سے زیادہ عوامی خدمت سے عبارت تھی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کئی سالوں تک وہ اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر رہے۔ سرکاری افسر کی حیثیت سے بھی انہوں نے دل جمعی اور انتھک محنت کے ساتھ کام کیا، لوگوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے، لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے آگاہی حاصل کی جو بعد ازاں انکے سیاسی کیئریر میں انکے کام آئے۔
ضلع چترال خیبرپختونخوا کے رقبے کے 20فیصد پر پھیلا ہوا علاقہ ہے، یہاں پر 36وادیاں ہیں ان وادیوں میں سینکڑوں گاؤں آباد ہیں۔چترال کے رقبے کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ بروغل سے لواری ٹاپ تک ایک ہیلی کاپٹر جتنا ٹائم لیتا ہے اتنا ہی وقت چترال سے اسلام آباد پہنچنے میں لگتا ہے۔شہزادہ صاحب اپنے متاثر کن اسٹیمنا، مضبوط اعصاب اور مقوی ذہنی صلاحیتوں کی بدولت چترال سے جڑے رہے، ان دور دراز، دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں گھومتے رہے۔ جسمانی اور ذہنی تھکن سے بے نیاز ہوکر نہ ختم ہونے والا سفر جاری رکھا، پر خطر پگڈنڈیوں پر کئی کئی گھنٹے سفر، کئی کئی گھنٹے پہاڑی سلسلوں میں پیدل مارچ، کئی مواقع ہر مہلک حادثوں سے بال بال بچتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا، دوران سفر جہاں رات ہوگئی وہاں ڈیرے ڈال دیا، گاؤں گاؤں گھومے، رات ہوئی تو کسی گاؤں میں اپنے سیاسی مخالف کے گھر میں مہمان بننے سے نہیں ہچکچائے، لوگوں سے گھل ملتے، انکی خبر گیری کرتے، جس سے بھی ملتے خندہ پیشانی سے ملتے اور گلے لگاتے، لوگوں میں گھل مل جاتے اور لوگ شہزادہ صاحب کی اپنائیت کا گرویدہ ہوتے۔ وہ چند لوگوں میں سے تھے جنہیں چترال کے پانچ سو سے زائد دیہات یا گاؤں چاہے وہ بروغل ہو، تورکہو میں ریچ ہو یا لوٹکوہ میں مداشیل یا پھر ارندو میں رام رام، ان تمام گاؤں کے مسائل اور مشکلات معلوم تھے۔
صوبائی سطح پر سرکاری وسائل آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں، بالخصوص 18ویں ترمیم سے قبل تو حالات اور بھی گھمبیر تھے،ان حالات میں چترال کو اس تناسب سے بہت کم وسائل ملتے ہیں اور یوں چترال کے نمائندوں کے لئے مشکل کھڑی ہوتی ہے کہ وہ اتنے بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے مگر کم آبادی والے علاقے کے مسائل کو حل کریں۔ شہزادہ محی الدین اپنے ذاتی تعلقات اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت مرکزی اور صوبائی سطح کے ذمہ داران کو قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور چترال کیلئے اضافی گرانٹ حاصل کرتے تاکہ لوگوں کے مسائل حل ہوں۔وہ اس بات کے قائل تھے کہ چترال جیسے پسماندہ اور دورافتادہ علاقے کیلئے ہمہ وقت قومی سیاست سے جڑے رہنا سود مند نہیں بلکہ چترال کی سیاست کا مطمع نظر یہ ہونا چاہیے کہ سیاسی مصالحت کرکے کہ اس علاقے اور عوام کی ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل حاصل کئے جائیں تاکہ لوگوں کی حالت زندگی بہتر ہو۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات