داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔معیشت بمقا بلہ سیا ست

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔معیشت بمقا بلہ سیا ست

عنوان عجیب لگتا ہے لیکن عجیب نہیں ہے آج کل کے دور میں معیشت اور سیا ست ایک دوسرے کے مقا بل آگئے ہیں نیٹو، روس،امریکہ اور یو کرین کی سیا ست نے دنیا کا معاشی نقشہ بدل کر رکھ دیا وطن عزیز پا کستان کے اندر اعتما د اور عدم اعتماد کی ایک ہفتے کی سیا ست میں سٹاک ایکسچینچ کو 213ارب روپے نقصان پہنچا ہے سٹاک ما ر کیٹ 76ارب روپے سے نیچے گر کر 74ارب سے کچھ کم ہو چکا ہے اور تنز لی کا رجحا ن جا ری ہے، ما لیاتی زبان میں سٹاک ما ر کیٹ تر قی کرے تو اس کو بیل سے تشبیہہ دی جا تی ہے انگریزی میں Bullishکہا جا تا ہے جب سٹا ک مار کیٹ تنز لی کا شکا ر ہو تو اس کو ریچھ سے تشبیہہ دی جا تی ہے انگریزی میں Bearishکہا جا تا ہے اعتماد اور عدم اعتما د کے کھیل میں پا کستان کا سٹاک مار کیٹ ریچھ سے بھی نیچے گر کر کچھوے کی رفتار پر آگیا ہے آگے مزید گر نے کا خطرہ مو جو د ہے قا نو نی پنڈ توں، آئینی امور کے ما ہرین اور پار لیما نی اداب سے واقفیت رکھنے والے دانشوروں کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ اعتما د اور عدم اعتما د کا کھیل مختصر دورا نیے کا کھیل نہیں ہو تا یہ کھیل 5ٹیسٹ میچوں کی سیریز سے بھی لمبا وقت لے لیتا ہے تحریک کی قرار داد آنے کے بعد اسمبلی کا اجلا س بلا نے میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں اگر سیا سی بے یقینی اور انتشار کی اس کیفیت کو سٹا ک ما ر کیٹ کی نظر سے دیکھا جا ئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل میں معیشت کا دیوا لیہ نکل جا ئے گا معا ملہ گھمبیر بھی ہے اور نا زک بھی شاعر نے اس پر دو مصر عوں میں تبصرہ کیا ہے ؎
رہزن ہے میرا رہبر، منصف ہے میرا قا تل
کہہ دو ں تو بغا وت ہے سہہ لوں تو قیا مت ہے
قوم کو بے یقینی اور گو مگو کی کیفیت میں مبتلا کرنے والے دونوں فریق سمجھتے ہیں کہ یہ سیا ست ہے اور اس میں سب کچھ جا ئز ہے سب کچھ میں وہ ملک گنوا نے اور آزا دی کا سودا کرنے کو بھی شا مل کر تے ہیں نذیر تبسم نے ایسے حا لا ت کی عکا سی غزل کے ایک شعر میں کی ہے ؎
جہاں بھو نچال فصیل با م و در میں رہتے ہیں
ہمارا حو صلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
معیشت کا محاذ بڑا نا زک محا ذ ہے یہ سو نے کی منڈی کی طرح صبح سے شا م تک کئی رنگ اور کئی نر خ بدلتا ہے اگر صبح 6بجے ایک رنگ اور ایک نر خ ہے تو ایک گھنٹہ بعد دوسرا رنگ اور دوسرا رنر خ ہو گا، معیشت کا عکس بدلتا نظر آتا ہے اگر دن کے 12بجے حصص میں دو کروڑ کا فائدہ ہوا تو کوئی بعید نہیں کہ دن کے 2بجے یہی فائدہ نقصان میں بدل جا ئے، سٹا ک ما رکیٹ کا تا جر قومی اور بین الاقوامی حا لات کی نبض پر ہا تھ رکھے ہوئے ہے حا لات دگر گوں نظر آئیں تو ما رکیٹ کو گرا دیتا ہے حا لات پر سکوں مل جا ئیں تو با زار اور حصص میں تیزی آجا تی ہے سٹا ک مار کیٹ سے بازار سیا ست کی سیر کرنے والا جب دوستی اور دشمنی کے رنگ دیکھتا ہے تو حیراں ہو جاتا ہے اور پر تو روہیلہ کو یا د کر تا ہے ان کا مشہور قطعہ ہے
یہ قصیدہ ہے جو تیری شان میں ہیں
یہ قصیدے ہی اس کی شان میں تھے
یہ جو تیری وفا کے گا ہک ہیں
یہ ابھی دوسری دکا ن میں تھے
معیشت میں دو جمع دو چار ہی ہو تا ہے یہ ریا ضی کا اصول ہے جبکہ سیاست میں ”ٹرکا لو جی“ کے اصول کے تحت دو جمع دو کا حا صل جمع تین بھی ہو سکتا ہے، یہ ایسا کو چہ ہے جس میں کوئی کسی پر اعتبار نہیں کر تا ہر ایک دوسرے کو شک کی نظر سے ایسے دیکھتا ہے جیسا کہ ہمارے دوست سلیم کوثر نے نقشہ کھینچا ہے ؎
عجیب اعتبار وبے اعتباری کے درمیاں ہے زندگی
میں قریب ہو ں کسی اور کے مجھے جا نتا کوئی اور ہے
لو گ کہتے ہیں سیا ست پا لیسی کا نا م ہے پا لیسی مکا ری کی سو تیلی بہن ہے اور مکا ری کو فریب کی اولا د کہا جا تا ہے فریب کے گھر کا چولہا جھوٹ کی تو ا نا ئی سے جلتا ہے، جھوٹ کی توا نا ئی دوستوں اور عزیزوں کی قر با نی سے حا صل کی جا تی ہے یہ ایسا بازار ہے جہاں باپ اپنے بیٹے کے لئے اجنبی ہو تا ہے اور بھا ئی اپنے بھا ئی کا دشمن ہو تا ہے جہاں اس طرح کا ما حول ہو وہاں معیشت خود کشی کر لیتی ہے چنا نچہ سیا ست کے تما شے میں معیشت کی کہا نی الجھ کے رہ گئی ہے بقول افتخار عارف ؎
کہا نی خود الجھی ہے کہ الجھا ئی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تما شا ختم ہو گا