داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔نیا سال
نیا سال ہر سال آتا ہے بلکہ ہر سال ہی نیا ہوتا ہے نئے سال کی مبارکباد کو شاعر نے یہ کہ کر رد کر دیا ہے ؎
ایک اینٹ اور گری دیوار حیات سے
احباب کہتے ہیں نیا سال مبارک ہو
پشتو کے شاعر اسرار اتل کی طویل نظم اس مضمون پرہے اتل کہتا ہے کہ میرے ہاتھ میں وہی سالوں پرانا بیلچہ ہے میرے باپ کے پا س وہی برسوں پرانی ٹاٹکی اور ریڑھی ہے میری ماں گذر ے سالوں کی طرح آج بھی اپنے سر پر ایندھن کی گٹھڑی رکھ کر جنگل سے آرہی ہے میری بہن آج بھی گذرے سالوں کی طرح سارا دن مویشیوں کے لئے چارہ کا ٹتی اور ڈھو تی ہے مجھے نئے سال سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے نئے سال کی مبارک سلا مت سے کیا غرض ہے! شاعروں کی دنیا ایک الگ دنیا ہو تی ہے شاعر کو ان دیکھی دنیا بھی نظر آتی ہے شاعر ان خیا لات کو بھی چن کے لا تا ہے جو دوسروں کی سمجھ میں نہیں آتے شاعر ی نا م ہی انو کھی باتوں کا ہے شاعری نا م ہی عجا ئبات کی دنیا کا ہے، شاعری میں ممکنا ت سے زیا دہ نا ممکنا ت سے بحث ہوتی ہے شاعر خودی کو تقدیر پر غا لب ہوتا ہوا دیکھتا ہے وہ بندے کو ستاروں پر کمند ڈالتا ہوا دیکھتا ہے وہ سمندروں اور پہا ڑوں سے بھی ہمکلا م ہو تا ہے وہ ما ہ و انجم اور خور شید و افلا ک سے بھی کلا م کر تا ہے زمینی حقیقت یہ ہے کہ 12مہینے گذر نے کے بعد نیا سال آتا ہے اور ہر سال آتا ہے ہم ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں کھوار کے شاعر عزیز الرحمن بیغش نے حقیقت کی دنیا میں شب و روز اور ما ہ و سال کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے ؎
ای بے رنگ شو سازو بو یان شا اوچے اشپیرو شوترار
پنڈ الو غون غیر دو مان فلکو ما کوا اوا
میرے سامنے سیا ہ اور سفید دھا گو ں سے بے رنگ کپڑ ابُنا جا رہا ہے میں خود گردش میں ہو ں فلک کے ہاتھوں مشین کے اندر نلکی بن کر گھوم رہا ہوں شاعر نے حقیقت حال بیان کرنے کے لئے زندگی کو بے رنگ کپڑا، روز و شپ کو سیا ہ اور سفید دھا گہ کا نا م دیا جو لا ہے کے ہاتھ میں مشین کی نلکی کو فلک کے ہا تھوں گر د ش کر نے والے بندے سے تشبیہ دیکر کا ئنا ت کے وسیع نظا م میں بندے کی نقل و حر کت کو محض نا قص پر زے کی گردش سے تعبیر کیا اور اس میں کوئی مبا لغہ نہیں اسلا می لٹریچر میں اما م غزا لی ؒ نے زند گی کے سفر کو ایک عجیب مثا ل کی مدد سے سمجھا نے کی کو شش کی ہے پہلے ایک حکا یت بیان کر تے ہیں پھر اس کی تشریح کر تے ہیں ایک آدمی لق و دق صحرا میں سفر کرتا ہے اتنے میں محسوس ہوتا ہے کہ ایک خونخوار چیتا اس کا پیچھا کر رہا ہے اس کو دائیں بائیں چیتے سے بچنے کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی سامنے دیکھتا ہے تو کنواں نظر آتا ہے کنویں میں جھانکتا ہے تو دیکھتا ہے کہ نیچے پا نی میں خونخوار اژدھا منہ کھو لے اس کا منتظر ہے کنوئیں کی دائیں دیوار پر جھا ڑی اُگی ہوئی ہے بائیں طرف شہد کا بھرا ہوا چھتہ ہے مسا فر کنویں میں چھلا نگ لگا کر جھا ڑی کو پکڑ لیتا ہے اور اژ دہے کے منہ میں جا نے سے بچتا ہے بائیں طرف کے چھتے سے شہد کا لطف اٹھا تا ہے شہد کے لطف میں اتنا مگن ہو تا ہے کہ دائیں طرف جھاڑی کی جڑوں کو کا ٹنے والے دو چو ہے اس کو نظر نہیں آتے ایک سفید چو ہا ہے دوسرا کا لا چو ہا ہے دونوں باری باری آتے ہیں اور جھا ڑی کو کا ٹتے رہتے ہیں مسا فر شہد کی لذت میں مست ہے اتنے میں چیتا کنویں پر آکر جھا نکتا ہے چو ہے جھا ڑی کی جڑوں کو کا ٹ کر الگ کر تے ہیں اور مسا فر دھڑا م سے اژ دہے کے منہ میں جا گر تا ہے اما م غزا لی فر ما تے ہیں کہ چیتا مو ت ہے، اژدہا قبر ہے جھاڑی زندگی میں امید کا سہا را ہے شہد کا چھتہ دنیا کی لذت کا استعارہ ہے، جھاڑی کو کا ٹنے والے سفید و سیا ہ چو ہے عمر کے شب و روز ہیں غور سے دیکھا جا ئے تو یہی نئے سال کی حقیقت ہے عمر سے ایک سال کی کٹو تی ہوئی اور بس۔