داد بیداد۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔طرز زند گی اور مہنگا ئی
اس میں دورائے نہیں کہ ملک میں مہنگا ئی ہے البتہ مہنگا ئی کی وجو ہات پر دو یا دو سے زیا دہ اراء ہو سکتی ہیں سب سے معتبر رائے یہ ہے کہ ڈالر اور تیل کی وجہ سے مہنگا ئی بڑھ گئی ہے دوسری رائے یہ ہے کہ سر کاری مشینری اشیائے صرف کی قیمتوں کے سر کاری نر خ پر عملدرآمد کرانے میں نا کام ہوئی ہے تیسری رائے یہ ہے کہ مہنگا ئی کا تعلق طرز زندگی سے ہے ہم نے اپنی ضروریات کا دائرہ غیر ضروری طور پر وسیع کر دیا ہے اس لئے مہنگا ئی سے متا ثر ہو رہے ہیں ایک ما ہر معا شیات کی نظر میں مہنگا ئی کی دو سطحیں ہو تی ہیں پہلی سطح شہری زند گی میں نظر آتی ہے جہاں لو گوں کے پا س زمین کی پیداوار نہیں ہو تی گھر سے بازار لے جا کر فرفروخت کرنے کے قابل کوئی جنس نہیں ہو تی گھر یلو بجٹ کا دارو مدار نقد کما ئی پر ہو تا ہے اور گھریلو استعمال کی ہر چیز بازار سے خرید نی پڑ تی ہے مہنگا ئی کی یہ سطح بہت زیا دہ متاثر کرتی ہے دوسری سطح دیہا تی زند گی میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں دودھ، گوشت، مر غی، انڈے، سلاداور ایندھن وغیرہ مفت ملتا ہے بعض گھرانوں میں آٹا بھی زمین کی پیداوار سے آتا ہے دالیں بھی گھریلو پیدا وار میں شامل ہو تی ہیں سبزیاں بھی زمین پر اگائی جا تی ہیں سر دیوں کے لئے ذخیرہ کر کے رکھی جا تی ہیں سروے کرنے والی ایک کمپنی نے گاوں میں ایک بڑھیا کا انٹر ویو کیا کمپنی نے پو چھا مو جو دہ مہنگا ئی کے بارے میں تمہا ری کیا رائے ہے بڑھیا نے کہا مو جو دہ حا لات میں کوئی مہنگا ئی نہیں 80سال پہلے ایک مر غی کے بدلے جتنی چائے آتی تھی اب بھی اتنی ہی چائے آتی ہے ایک درجن انڈوں کے عوض میرے بچپن میں جتنی چینی آتی تھی آج بھی اتنی ہی چینی آتی ہے بڑھیا کو روپے پیسے کے حساب کا علم نہیں تا ہم اس کے تجربے اور مشا ہدے کا مفہوم یہ ہے کہ 1941ء میں چائے 4روپے سیر آتی تھی، مر غی کی قیمت 8آنے تھی اور 8آنے میں آدھ پا ؤ چائے آتی تھی جس گھر میں بازار میں فروخت کرنے کے قا بل کوئی جنس ہے وہ مہنگا ئی سے متا ثر نہیں ہو تا گاوں کی بڑھیا کہتی ہے کہ 80سال پہلے ہم گھی اور چاول، بازار سے نہیں خرید تے تھے، 80سال پہلے بجلی اور گیس کے بل نہیں تھے بچوں کے سکول کی فیس نہیں تھیں، آج کل ایسے ایسے اخرا جا ت آگئے ہیں کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے اگر چہ بڑھیا نے ذکر نہیں کیا تا ہم بسوں میں سفر، ٹیکسی، رکشہ وغیرہ کے کرایے، میک اپ کے سامان اُس کے بچپن میں نہیں تھے 80سال پہلے لو گ سال میں ایک بار کپڑے بنا تے تھے ایک بار جو تے خرید تے تھے آج کل ہر ماہ دو جو ڑے کپڑے اور دو جوڑے جو تے ہر ایک کے لئے خرید نے پڑ تے ہیں یہ طرز زند گی یا لائف سٹا ئل کا معا ملہ ہے مو جو دہ مہنگا ئی میں لا ئف سٹا ئل کا بڑا دخل ہے طرز بود باش کا بڑا حصہ ہے لا زمی خریداری اور غیر ضروری خریداری میں تمیز یا فرق نہ کرنے کا دخل ہے اس وجہ سے مہنگا ئی بری طرح محسوس ہو رہی ہے صا رفین نے بازار کا بائیکا ٹ کر کے کئی بار ثا بت کیا ہے کہ مہنگا ئی مصنو عی تھی بائیکا ٹ کے بعد ختم ہو گئی مثلا ً پیا ز، ٹما ٹر، آلو، ٹینڈا، مر غی، انڈہ وغیرہ لا زمی اجنا س کی فہر ست میں جگہ نہیں پا تے اس طرح گھی کا بھی بائیکا ٹ کیا جا سکتا ہے صابن اور ڈٹر جنٹ کی بے شما ر اقسام بازار میں مو جود ہیں ان میں سے جو چیز مہنگی ہو اس کا بائیکا ٹ کر کے نر خوں کو معقول سطح پر لا یا جا سکتا ہے صارفین کو اپنی طاقت کا اندازہ ہونا چا ہئیے مہنگا ئی کا 50فیصد تعلق ڈالر، تیل اور سر کا ری نر خ نا مے سے ہے تو 50فیصدکا تعلق ہمارے طرز زندگی یا لائف سٹا ئل سے ہے اگر وہ ہمارے بس میں نہیں تو یہ ہمارے بس میں ہے