دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔۔۔آو بدعنوانی کا ہفتہ منائیں ”
ہر سال نو دسمبر کو پوری دنیا میں Anti Corruption Dayمنایا جاتا ہے۔۔۔ساری دنیا کے انسان عہد کرتے ہیں کہ وہ بد عنوانی سے اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو پاک رکھیں گے اسی عہد کو قرانی اصطلاح میں ”توبتہ النصوح” کہا گیا ہے۔۔یعنی سچی توبہ۔۔۔آج پھر 9 دسمبر آگیا ہے پاکستان میں بھی بدعنوانی روکنے کا بین القوامی دن منایا جائے گا۔سکولوں میں بینر لگائے جائینگے۔اسمبلی میں خطاب کیا جائے گا۔بچوں کو بتایا جائے گا کہ بد عنوانی کیا ہے؟ لیکن آج بھی حسب معمول اساتذہ اسمبلی میں دیر سے پہنچیں گے بچے بھی لیٹ آئینگے۔۔کلاس لگے گی تو استاد لیٹ کلاس میں جائے گا۔کرسی پہ بیٹھے گا سمارٹ فون اگر ہے تو استعمال کرے گا۔گھنٹی بجنے پر کلاس روم سے باہر آجائے گا۔۔آج بڑے سرکاری آفیسرز حسب معمول دس بجے اُٹھیں گے آرام سے ناشتہ کریں گے گیارہ تیس کو دفتر پہنچیں گے۔۔حالانکہ ان کی ڈیوٹی نو بجے شروع ہوچکی ہوگی۔۔صبح ان کے بچوں کو سرکاری گاڑی سکول پہنچا چکی ہوگی۔ایکسن آج کسی سایڈ سے اپنے دفتر میں کمیشن وصول کرے گا۔۔ٹھیکہ دار سایڈ پہ جا کرکے 1:10کی نسبت سے کنکریٹ بنانے کی ہدایت دے گا۔۔کوئی Fir بدلنے کی آج بھی سفارش ہوگی۔۔وزیر اعظم کو اس کی پارٹی کارکنان کی کارکردگی رپورٹ پیش ہوگی۔آج بھی حسب معمول سیاسی وفاداریاں بدل جائیں گی۔امتحانات میں آج معمول سے زیادہ نقل ہوگی۔۔عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں ہونگی۔نیب عدالت کی ٹیبل سے آج بھی فایلیں غائب ہونگی۔آج کا سورج بھی دیکھے گا کہ نوکریاں تقسیم ہو رہی ہیں۔بھتہ خوری سرعام ہے۔۔رشوت کا بازار آج بھی گرم ہے۔لیکن ہم آج پوسٹ لگائیں گے۔۔بینر لگائیں گے دیواروں پہ لکھیں گے۔۔پاکستان ہمارا ہے آؤ پاکستان کو بد عنوانی سے بچائیں۔۔۔Say no to corruption..تقریبات سجائی جائیں گی۔۔مقرریں شعلہ بیانی دیکھائیں گے۔۔ٹی وی میں نصیحتیں ہونگی۔۔لیکن چھٹی کیوقت سرکاری گاڑیاں سکولوں کے پارکوں میں آفیسروں کے بچوں کے انتظار میں کھڑی ہونگی۔اساتذہ کسی معقول بہانے کے ساتھ چھٹی سے پہلے اداروں سے نکل چکے ہونگے۔۔ڈاکٹر ہسپتال چھوڑ کر اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے ہونگے۔لوگوں کے خفیہ اکاونٹس بھر چکے ہونگے۔عدالتوں سے انصاف کا جنازہ نکالاجا چکا ہوگا۔لیکن ہم اپنے آپ کو دھوکہ دینے والے اگر آج کرپشن ڈے مناتے تو اچھا تھا۔۔اینٹی کرپشن کے بجائے۔۔۔کم از کم سچ بول چکے ہوتے۔۔اپنی تقریروں میں کہتے کہ کرپشن ہماری مجبوری ہے اس لیے ضروری ہے۔۔ورنہ تو ہم کچھ نہ بولتے۔آج تو ہماری نسل کا اعتبار بھی ہم سے اٹھ چکا ہے۔لم تقولون ما لا تفعلون۔۔۔یہ تو علیم خبیر اللہ کے نزدیک بہت ناپسند ہے کہ بندہ جو کہے وہ نہ کرے۔۔ایک استاد کو چاہیے کہ وہ اپنی کلاس کو ایسے جائے جیسے وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹنے جاتا ہے۔تبر کلہاڑی رسی توشہ یونیفارم ساری ضروریات پوری کرکے جائے اور تھک ہار کے کام ختم کرکے مطمین ہوکے گھر پہنچے۔۔استاد بھی تھک ہار کے کلاس روم سے نکلے اور سٹاف روم کی کرسی پر دونوں ہاتھ پھیلا کے ڈھیر ہوجائے اور پوچھنے والے کو بتائے۔۔میری کلاس تھی یار۔۔۔۔پھر وہ بدعنوانی کو بُرا کہیں مانی جائے گی۔اسی طرح معاشرے کے ہر طبقے کا حال ہو۔۔لیکن یہ معاشرہ نہیں جنگل ہے وہاں پر طاقت قانون ہے جس کے پاس طاقت ہے قانون بھی اسی کا ہے۔۔یہ نقارخانہ ہے یہاں پر دھاڑ چنگاڑ کی ضرورت ہے طوطے کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی۔۔۔لیکن کیا کریں گے کرپشن ڈے منائیں گے۔۔۔۔مجبوری ہے۔۔۔۔حکومت نے کہا ہے۔۔۔۔