دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔”نرخ بالا کن“
تیل اور دوسری سب چیزوں کی قیمتیں بڑھانا شاید تمہاری مجبوری ہو لیکن اس میں شک اس لیے پڑتا ہے کہ مجبوری میں عیاشیاں نہیں ہوتیں۔عظیم راہنما”میری قوم“ کہا کرتے ہیں اور ہمہ وقت قوم اور قوم کے اوقات ان کی نظروں میں ہوتے ہیں۔حکمران تو کسی بھی قوم کا چہرہ ہوتا ہے اس کی ناموس اس کی پہچان۔۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حکمرانوں کو تو تاریخ زبانی یاد ہونی چاہیے۔ہم اسلامی ملک میں رہتے ہیں اسلامی تاریخ۔۔۔ اگر نہیں تو چرچل شی گویرا کاسترو نلسن منڈیلا جرمنی کی سابقہ چانسلر جو کرایے کی فلیٹ میں رہتی ہے ان کی زندگی اور تاریخ سے تو واقفیت ہو۔۔یہ سب اپنی قوم کے چہرے تھے قوم کی عیاشیاں اور ساتھ دکھ ان کے چہروں سے عیان ہوتے۔ایسا نہیں کہ وہ آرام دہ گاڑیوں میں پھیریں اور قوم پیدل ٹھوکریں مارتی پھرے۔۔وہ اپنے سامنے ہفت خوان سجائیں اور قوم کا چولہا نہ جلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔ہم ذرا ان سے مختلف ہیں۔۔ہم اس لیے کسی مجبوری کا ادراک نہیں کر سکتے۔دکھ درد بانٹنے والے حکمران ہوتے اشک شوئی کرنے والے راہنما ہوتے تو ہم قبول کرتے کہ ان کی بھی مجبوریاں ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ہم میں قناعت نہیں لیکن ہم مقابلے کے معاشرے میں رہتے ہیں ہم اپنے اردگرد میں جکڑے ہوئے ہیں جس کے ارد گرد دولت کی ریل پیل ہو وہ بے موت مرتا ہے۔وہ زندگی نہیں گزار سکتا۔وہ بچوں والا اپنے بچوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔وہ ان کو تعلیم نہیں دلا سکتا اور اس آرزو میں بے موت مرتا ہے وہ گھر نہیں بنا سکتا اور”حسرت تعمیر“ لے کے دنیا سے جاتا ہے۔وہ بچوں کو کھیلا پہنا نہیں سکتا اور اس وجہ سے بچوں کی آنکھوں میں افسردگی برداشت نہیں کر سکتا وہ ان کی شادی نہیں کر ا سکتا اس وجہ سے ان کی بچی کو پتہ نہیں ہوتا کہ جوانی کب آئی کب گئی۔ان کے بچے کو صرف یہ پتہ ہوتا ہے کہ حسرتیں جوان ہوتی ہیں آرزویں کبھی جوان نہیں ہوتیں۔وہ زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں بس تو نرخ بالا کر وہ مذید ٹکڑے ٹکڑ ہوجائینگے تمہیں قوم نہیں چاہیے بس ہڈیوں کا ڈھانچہ چاہیے۔
~۔۔ہر گھڑی عمر گزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا
سب ان کی زندگی سمٹ گئی ہے باورچی خانے تک آگئی ہے اب انہیں فاقوں کی فکر ہے کہیں ان کے بچے ان کے سامنے فاقوں سے تڑپ تڑپ کر مر نہ جائیں۔جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر تھی وہ یہ فکر بھول گیا ہے۔۔کہیں لے دے کے ایم اے کرتے تھے Bs نے یہ موقع بھی چھین لیا ہے ابھی قوم کے بچے ہاتھ ملتے ہوئے بے تعلیم اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔تو مذید تعلیم کی نرخ بالا کر۔۔۔
عالمی منڈی میں تیل کی کیا قیمت ہے یہ ان پڑھ قوم کو سمجھانے والی بات نہیں۔۔آپ کے پارلیمان میں غریبوں کے نمایندوں کی عیاشیاں کیسی ہیں یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ تمہیں ماننے والوں اور تمہارے کارکنوں پہ بھی مشکل آن پڑی ہے
~۔۔ کرکے محبت کرکے تمنا سر جھکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بتائیں تمہیں۔
اقوال اور اعمال میں بڑا فاصلہ ہوتا ہے۔کامیابی کے پیچھے ایک مضبوط قوم ہونی چاہیے قوم اس وقت مضبوط ہوگی جب اس کی فکر کی جائے اس کے بارے میں سوچا جائے۔ہماری تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے۔۔ کہ ہم مسجد نبویؐ کے ننگے فرش پر اینٹ سرہانے رکھ کر دنیا پر حکومت کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم اپنا معاوضہ ایک مزدور کے معاوضے کے برابر رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہم راتوں کو آٹے کی بوریاں کندھوں پہ اٹھا کے گلیوں میں پھرنے والے لوگ ہیں ہم انصاف اور عدل کے وہ چمپٗین ہیں کہ اپنے لخت جگر کو خود سزا دیتے ہیں۔انصاف کی دھائی نہیں دیتے انصاد کرکے دکھاتے ہیں تب ہم نے فخر موجوداتؐ کا ڈیزائن کیا ہواریاست مدینہ بر قرار رکھا تھا جو دنیا کے لیے خواب ہے دوسری قوم اس خواب کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ترقی کر رہی ہیں۔ ہم ان کی مثال دیتے پھر رہے ہیں۔ہمارے ہاں سارا سسٹم فیل ہے بظاہر سارے محکمے فیل ہیں۔ایک دوسرے کو گلے شکوے بہت ہیں۔چیزوں کی نرخ کنٹرول نہیں ہوتی انتظامیہ فیل ہے۔قصوروار سے قصور منوایا نہیں جاتا مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ فیل ہے۔ اپنا احتساب ہم نہیں کرتے اپنی غلطیاں ہمیں نظر نہیں آتیں بحیثیت قوم ہم فیل ہیں۔ ایسی قوم کے ساتھ ایسا سلوک ہونا ہے۔بے سرو پا بے بس۔۔ہم میں اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی جرات ہی نہیں مقروض قوم کا یوں حال ہونا ہے۔۔بس نرخیں بالا کرتے جاو بس چیخیں نکلیں گی اور کیا ہوگا۔۔