داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔اعتماد سازی
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان خلیج روزبروز بڑھتی جا تی ہے تعلقات میں تعطل روبروز بڑھتا جا تا ہے یہاں تک نو بت آگئی ہے کہ دنوں بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں اس گلی میں نہ پیچھے مڑ نے کی گنجا ئش ہے نہ آگے جا نے کا راستہ ہے سوشل میڈیا پر ایک بڑے پا یے کے دانشور نے تجویز دی ہے کہ جمہوریت ہمارے ملک کے لئے مو زوں طرز حکومت نہیں اس کا کوئی بہتر نعم البدل ڈھونڈ لیا جا ئے یعنی بادشاہ ہت لائی جا ئے اور ”مغل اعظم“ کے دور میں سکون امن یا آشتی کی زندگی گذار ی جا ئے دانشور نے طنزاً یہ بات نہیں لکھی انہوں نے دلیل دی ہے کہ جمہوریت میں اخراجات بہت ہیں الیکشن کا خر چہ، ارا کین پا رلیمنٹ کا خر چہ، کا بینہ کا خر چہ، پھر الیکشن،پھر اتنے سارے انتشار، غل غباڑے، ہلہ گلہ، شور شرابہ اور بے اطمینا نی کے سوا کچھ نہیں سوشل میڈیا پر دانشور کی یہ تجویز سب کو بری گلی سب نے اس کی مخا لفت کی بعض دوستوں نے دانشور کو جلی کٹی سنا ئیں اب یہ طوفان نہیں تھما تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے صدر مملکت کے خطاب کی گھڑی آگئی یہ چو تھے پارلیمانی سال کے آغاز پر ہو نے والا آئینی خطاب تھا اس کو دستور یا Ritualکی حیثیت حا صل ہے صدر مملکت خطاب کے لئے روسٹرم پر آئے تو حزب اختلا ف نے شور شرابہ کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا پہلے ایوان کو مچھلی بازار بنا یا پھر واک آوٹ کر کے با ہر نکل گئے اندر والوں نے سُکھ کا سانس لیا ”جان بچی لا کھوں پا یے“ یہ واقعہ پہلی بار نہیں ہوا 1989سے مسلسل ایسا ہو تا آرہا ہے غلا م اسحا ق خان کے خطاب سے یہ منفی روایت شروع ہوئی فاروق لغا ری، رفیق تارڑ، پرویز مشرف، آصف زرداری اور ممنون حسین سے ہوتی ہوئی یہ روایت عارف علوی تک آگئی ہے کسی بھی حزب اختلا ف کو اس روایت سے انحراف کی تو فیق نہیں ہوئی شا ید فیس بک والے دانشور نے درست بات کہی ہے ہمیں مغل اعظم کی باد شا ہت چاہئیے مگر یہ تفنن کی بات نہیں طنز و تشنیع کا معا ملہ نہیں سنجیدہ مو ضوع ہے حا لات حا ضرہ کی ایک تصویر ہے قومی زند گی کا ایک عکس ہے ہماری جمہوریت کا آئینہ ہے پارلیمنٹ کے اندر ہٹلر بازی کی طرح پارلیمنٹ سے باہر بھی رسہ کشی اور کھینچا تا نی ہورہی ہے گرما گرم مو ضوع الیکٹر انک ووٹنگ مشین ہے جس طرح حکومت نے قومی مفا ہمت (NRO) کو گا لی کا در جہ دیا ہے با لکل اسی طرح حزب اختلاف نے الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کو دھا ندلی کا معمہ بنا دیا ہے حالانکہ نہ این آر او بری چیز ہے نہ الیکٹرا نک ووٹنگ مشین دھا ندلی کی نشا نی ہے حکومت نے اسمبلی میں پیش کر نے کے لئے جو بل تیار کیا ہے اس بل میں انتخا بی اصلا حات کا پورا پیکچ ہے چو نکہ اسمبلی میں حکومت کے پاس دو تہا ئی اکثریت نہیں اس لئے اس بل کو مشتہر نہیں کرتی اچا نک پا س کر نا چا ہتی ہے حکومت کو شک ہے کہ حزب اختلاف نے اگر بل کو پڑھ لیا تو پا س کرنے نہیں دیگی حزب اختلا ف کو شک ہے کہ حکومت الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کے ذریعے ووٹ چوری کرنا چا ہتی ہے گو یا ”دنوں طرف آگ ہے برا بر لگی ہوئی“ دونوں ایک دوسرے پر اعتما د نہیں کر تے جس طرح دو دشمن ملکوں کو مذ اکرات کی میز پر لا نے کے لئے اعتما د کی فضا پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے اعتما د سازی کو CBM کہا جا تا ہے اسی طرح ملک کے اندر دو متحا رب دھڑوں کو ایک دوسرے کے قریب لا نے کے لئے اعتما د سازی ہو نی چاہئیے اعتما د بحا ل ہو گا تو بات آگے بڑھے گی ہونا یہ چا ہئیے تھا کہ حکومت اور حزب اختلا ف مل کر عبوری حکومت کی ضرورت کو ختم کر کے بر سر اقتدار جما عت کو انتخا بات کر انے کی ذمہ داری دیدیتے ساری دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے کتنی خوش آئیند بات ہو تی اگر مو جودہ حزب اختلا ف الیکٹر انک ووٹنگ مشین کا خیر مقدم کر تی پوری دنیا میں یہ مشین استعمال ہور ہی ہے پڑوسی ملک میں بھی اس کو کا میا بی سے استعمال کیا جا رہا ہے ہم مشین سے کیوں خوف زدہ ہیں؟ یہ احساس کمتری کی علا مت ہے ہم نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ حکومت مشین کے ذریعے ہمیں ہرا نا چاہتی ہے ہم نے کیسے فرض کر لیا کہ سمندر پار پا کستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی صورت میں ہم شکست کھا ئینگے حکومت اور حزب اختلا ف کے درمیان حا ئل اس خلیج اور تعطل کو دور نہ کیا گیا تو ”مغل اعظم“ کو واحد حل کے طور پر سامنے لا نے والوں کی تعداد میں روز بروز اضا فہ ہو گا، جمہوریت پر سے عوام کا اعتما د اُٹھ جا ئے گا اعتما د سازی کے لئے حکومتی حلقوں سے صدر عارف علوی، سپیکر اسد قیصر اور وزیر دفاع پرویز خٹک موثر کر دار ادا کر سکتے ہیں حزب اختلا ف کے کیمپ میں مو لا نا فضل الرحمن، میاں شہباز شریف اور آصف زرداری ایسے قائدین ہیں جو تعطل کو دور کر کے اعتما د کی فضاء بحال کر سکتے ہیں سیا ست میں دو جمع دو کا جواب ہمیشہ چار نہیں آتا تین کو بھی درست ما نا جا تا ہے پا نچ کو بھی درست ما نا جا تا ہے یہی جمہوریت کو بچا نے کا فارمو لا ہے۔