داد بیداد ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔کیفر کردار کہاں واقع ہے؟
اسلام اباد میں ایک بار پھر ایک خا تون کی ابرو ریزی ہو ئی حکومت نے ایک بار پھر کہہ دیا کہ مجرموں کو کیفر کر دار تک پہنچا یا جا ئے گا حکومتیں ہر گھنا ونی واردات کے بعد دعویٰ کر تی ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جا ئے گا لیکن ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی مجرم کو کیفر کر دار تک پہنچا یا گیا ہو ہمارے دوست شاہ جی عمر کے لحا ظ سے 70کے یبیٹے میں ہیں ایک دنیا دیکھی ہے گرم و سرد چشیدہ بھی ہیں گر گ باراں دیدہ بھی مگر بھو لے اتنے ہیں کہ ان کو کیفر کر دار کا محل وقو ع اور جعرا فیہ معلو م نہیں رات بھر ی محفل میں پو چھ رہے تھے مجھے بتا ؤ یہ کیفر کردار نا می جگہ کہاں واقع ہے مجرم کو وہاں پہنچا نے کے لئے جہاز چا ہئیے، ریل کا ٹکٹ چا ہئیے یا عام بس اور فلا ئنگ کو چ کے ذریعے بھی مجرم کو کیفر کردار تک لے جا یا جا سکتا ہے؟ اگر حکو متوں کے پا س ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں وہاں تک جا نے کے لئے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ملتی یا فلمی گیت کی رو سے ”نہ گاڑی ہے نہ گھوڑا ہے وہاں پیدل ہی جا نا ہے“ تو پھر حکومتیں یہ اعلا ن کیوں کر تی ہیں کہ مجر م کو کیفر کردار تک پہنچا یا جا ئے گا؟ اس جگہ کا بار بار نا م لینے سے حکو متوں پر عوام کا اعتما د اُٹھ جا تا ہے عوام حکومتوں کی باتوں کا یقین ہی نہیں کر تے اور یہ کسی بھی حکومت کا بہت بڑا نقصان ہے تفنن بر طرف یہ طنزو مزاج نہیں بلکہ حقیقیت ہے کہ کیفر کردار کا نا م سن، سن کر ہمارے کا ن پک گئے ہیں کسی مجر م کو کیفر کردار تک پہنچتے نہیں دیکھا بعض اوقات گماں ہو تا ہے کہ کیفر کردار بھی آب حیات یا ہمااور ققنس نا می پر ندوں کی طرح خیا لی جگہ ہو گی جسے کسی نے نہیں دیکھا حقیقیت یہ ہے کہ کیفر کردار کا لفظ دو فارسی الفاظ کا مر کب ہے کیفر کے معنی انجام اور کر دار کے معنی کر توت اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت مجرم کو اس کے کر توت کا انجام دکھا ئے گی یعنی قانون کے مطا بق سزا ئے موت دے کر عبرت کا نشان بنا ئیگی یہ تر کیب ایران، توران اور قدیم ہندوستان کے باد شا ہوں کی تر کیب ہے اُ س زما نے میں مجر م کو چند دنوں کی رسمی کاروائی کے بعد پھا نسی دی جا تی تھی اس عمل کو ”کیفر کردار تک پہنچا نا“ کہتے ہیں یعنی مجرم اپنے کر توت کے انجا م کو پہنچ گیا اگر غور کیا جا ئے تو کیفر کردار دور نہیں وہاں تک کسی کو پہنچا نے کے لئے ہوائی جہاز یا ریل کی بھی ضرورت نہیں حکومت اور کیفر کردار کے درمیاں قانون کی مو شگا فیاں حا ئل ہو چکی ہیں مثلا ً مجرم نے اندھیری رات کو کسی کے گھر پر حملہ کیا 4افراد کو قتل کیا اور موقع واردات پر اسلحہ کے ساتھ پکڑا گیا پو لیس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا، مجسٹریٹ کے سامنے بھی اقرار کیا باد شاہوں کے زما نے میں اس کو 4بار پھا نسی دی جا تی تھی اس کی جا ئداد ضبط کر کے مقتو لوں کے ورثا کو دی جا تی تھی یہ کیفر کر دار تھا اب مجرموں کا دفاعی وکیل آجا تا ہے وہ پو لیس کی گوا ہی کو نہیں ما نتا، مقتو لین کے ور ثا کی گوا ہی اس کی نظر میں قا بل قبول نہیں ڈاکٹر کی رپورٹ کو معتبر نہیں ما نا جا تا دفا عی وکیل استعاثہ کے مقدمے کو مشکوک قرار دیتا ہے اور شک کا فائدہ انگریز کے قانون میں بھی ملزم کو دیا جا تا ہے شر عی قوانین میں بھی شک کا فائدہ ملزم کو دینا جا ئز ہے چنا نچہ شک کا فائدہ دے کر ملزم کو بر ی کیا جاتا ہے کیفر کر دار نظروں سے اوجھل ہو تا ہے ملزم با ہر آکر دو چار ایسی وار دا تیں اور بھی کر لیتا ہے 16دسمبر 2014کے روز آر می پبلک سکول پشاور کا ہو لنا ک واقعہ پیش آیا تو حکومت اور حزب اختلا ف نے مل کر فو جی عدا لتوں کا قا نون منظور کر وا یا اس قانون کے تحت فو جی عدا لتیں قائم ہو ئیں 20سال پرا نے واقعات کی فائلیں بھی فو جی عدالتوں کو بھیجی گئیں 2015کے دوران سزا ئے موت پر عملدرآمد شروع ہوا تو لو گوں نے سکھ کا سانس لیا 1994اور 1996میں کسی گئی وارداتوں کے مجرموں کو بھی اس دوران کیفر کر دار تک پہنچا یا گیا یہ ایک اچھا تجربہ تھا اس قانون کا دائرہ اثر محدود تھا اس کی مدت ختم ہونے کے بعد کیفر کردار ایک بار پھر سینکڑو ں سالوں کی مسافت پر چلا گیا ہے مجرموں کو کیفر کر دار تک پہنچا نے کے لئے ایک بارپھر غیر معمو لی حا لات کے مطا بق خصو صی قوا نین لا نے پڑینگے ورنہ کیفر کر دار کسی کو نظر نہیں آئے گا سب پو چھتے پھرینگے کیفر کر دار کہاں واقع ہے؟