داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔خواب غفلت کا شکوہ
بجٹ کی مثال بُز کشی کے قدیم کھیل کی طرح ہے جس میں گھڑ سوار ایک دنبے پر جھپٹتے ہیں جو طا قتور ہوتا ہے وہ دنبے کو اچک لیتا ہے اور سر پٹ گھوڑا دوڑا کر اپنی فتح کا اعلا ن کرتا ہے یہ بُز کشی مو جودہ سال اپنے عروج کو پہنچ گئی جب قو می اسمبلی میں بجٹ کی کتاب کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیئے گئے بلو چستان اسمبلی کو تا لہ لگا یا گیا جن کو حصہ نہیں ملا وہ لو گ اپنے غصے پر قا بو نہ رکھ سکے اور جن کو حصہ ملا وہ مست ہا تھی کی طرح آپے سے با ہر ہوئے جو حلقے اور علا قے تر قیا تی فنڈ اور منصو بوں سے محروم رہے ان کا گنا ہ یہ تھا کہ خواب غفلت میں پڑے تھے اور خواب غفلت کا کوئی شکوہ بھی نہیں تھا اس کی شکا یت بھی نہیں تھی مثلا حلقہ نمبرایک کے گیس پلا نٹ منسوخ ہوگئے پختہ سڑک کی جا ری سکیم کو بند کر دیا گیا، بجلی کی تر سیل کے کام ادھورا چھوڑ دیئے گئے کیونکہ لو گوں نے خدا کے نا م پر علما ء کو ووٹ دیا علما ء حزب اختلا ف میں بیٹھ گئے سزا کس کو ملی اُس حلقے کے 7لا کھ عوام کو ملی یہ خواب غفلت کی سزا ہے اور خواب غفلت کی ایسی ہی سزا ملتی ہے افغا نستا ن کے ایک باد شاہ کا قصہ کہا نیوں کی کتا بوں میں آتا ہے باد شاہ رعا یا سے بیگار لیتا تھا قلعے کی موٹی اور اونچی دیواریں بن رہی تھی جو شخص کام کے دوران بیماری کی شکا یت کر کے سستی دکھا تا اس کو دیوار میں لگا کر ہمیشہ کے لئے دفن کیا جاتا یعنی زندہ دیوار میں چُن دیا جا تا اس طرح 600بندے زندہ دیوار وں میں چُن دیئے گئے ایک دن ایک شخص کو بخار چڑھا تو اُس کو گھر پر لٹا کر اس کی بیوی بر قعہ اوڑھ کر کدال بغل میں دبا کر بیگار پر چلی گئی کام پر جا کر اُس نے بر قعہ ایک طرف رکھ دیا اور کام میں مصروف ہوئی صحت مند اور تنو مند خا تون تھی مردوں کے شا نہ بشا نہ کام کر رہی تھی اتنے میں باد شاہ خو د کام کا معائینہ کر نے کے لئے آگیا باد شاہ کو آتے دیکھ کر خا تون نے بر قعہ اوڑھ لیا اور کام میں مگن ہوئی باد شاہ نے خا تون سے پو چھا تم دو ہزار مردوں کے مجمع میں بر قعہ کے بغیر کام کر رہی تھی مجھے آتے ہوئے دیکھ کر تم نے بر قعہ اوڑھ کر کس لئے پرد ہ کیا؟ خا تون نے جواب دیا کہ یہ جو 2000بیگاری ہیں ان میں مرد کوئی نہیں سب میری طرح عورتیں ہیں تم آگئے تو مجھے احساس ہوا کہ اب ایک مر د آگیا ہے اس لئے میں نے بر قعہ اوڑھ کر پر دہ کیا آج کے دور کی بڑی حقیقت یہ ہے کہ مردوں میں مر دا نہ پن نہیں رہا لو گ ظلم سہتے ہیں، نا انصا فی کو بر داشت کر تے ہیں اور خا موش رہتے ہیں ظلم کے خلا ف آواز بلند کرنے سے اجتما عی مفاد حا صل ہوتا ہے خا موش رہنے والا اپنا انفرادی مفاد حا صل کر تا ہے گو یا انفرادی مفا دات کے چکر میں قوم بکھر جا تی ہے ملک لٹ جا تا ہے حکومت کی عملداری نا بود ہو جا تی ہے ہر شخص اپنا اُلّو سیدھا کر کے اپنے آپ کو مطمئن کر تا ہے جس طرح چیونٹی دانہ لیکر اپنے بل میں گھس جا تی ہے بجٹ کے مو سم میں ہم دیکھتے ہیں ہر شخص اپنا مفاد دیکھتا ہے کوئی ایسا شہری نہیں ملتا جو اجتما عی مفاد کے لئے آواز اٹھا تا ہو جو ن ایلیا نے گذشتہ صدی میں ایک شہرہ آفاق نظم لکھی تھی نظم کا عنوان ہے ”ولا یت خا ئبان“ دو مسافر بریر ابن سلا مہ اور یاسر ابن جُندُب ایک نئے ملک میں دا خل ہو کر سرائے سین میں ٹھہر تے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ اس ملک کے سارے لو گ گہری نیند کی کیفیت سے دو چار ہیں خرا ٹے ہی خراٹے سنا ئی دیتے ہیں ایک تیسرا مسا فر ملتا ہے وہ ان کو بتا تا ہے کہ اس ملک کی ہوا میں بھی نیند لا نے والی تا ثیر ہے پا نی بھی خواب آورہے اس ملک کے باد شاہ نے ایسا پختہ انتظام کیا ہے کہ کوئی شہری خواب سے بیدار نہ ہو کوئی شہری نیند سے نہ جا گے اگر لو گ جا گ گئے اور شہر ی حقوق ما نگنے لگے تو پھر باد شاہ کی باد شاہ ہت کا کوئی مزہ نہیں رہے گا اس گفتگو کے دوران دونوں مسافر وں پر نیند کا غلبہ ہوا تیسرا مسا فر بھی خرا ٹے لینے لگا ہم بھی ولایت خا ئبان کے با سی ہیں ہماری آواز کوئی نہیں صر ف خرا ٹے ہیں یہ خواب غفلت کا شکوہ ہے جو حکومت کے ایوا نوں سے ٹکرا کر پا ش پا ش ہو جا تا ہے