ادبی برسات…. لوٹ دور سے دروش تک(تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک) shmubashir99@gmail.com ٭ روبن سن کروسو۔

Print Friendly, PDF & Email

ادبی برسات…. لوٹ دور سے دروش تک(تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک) shmubashir99@gmail.com
٭ روبن سن کروسو۔
لوٹ دور… بونی…. خوبصورت بلندو بالا چنار اور اس کے سائے میں ”چھاغی دیک“ مکین رضاخیل قبیلے کے لیے اسی بلند چنار کی حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ بونی کے مختلف اقسام کی رنگت اور ذائقہ رکھنے والے… سیبوں… کی طرح… ذائقہ لذیز بھی رکھتے ہیں۔ مرحوم صوبیدار ِدبور اپنی وجاہت، سادگی، علم دوستی اور دلکش طرز گفتگو میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ایک کٹر اسلامی ذہین رکھنے کے باوجود ” کیلاش“ قوم کے لیے صحیفہ عنایت کرنا کسی عام شخص کی بس کا روک نہیں یہ کار گر ان خیز وہی انجام دے سکتا ہے جس پر رب کریم نے ”عنایت “ کی برسات کئے ہوں…. اشپتا کے خالق بھائی عنایت کوبھی دلکش رنگ و ذائقہ ورثے میں ملا ہے۔ مرحوم ظفر بھائی ان سب کے سردار تھے۔ خوش گفتار، خوش شکل،علم دوست جس کی یاد ہمیشہ ساتھ رہے گی۔ بابا ارشاد نیم حکیم خطرہ جان کی ایک مسلم اور یورپی اسٹائل کے حسین ترین امتزاج ہیں محافل کے جاں، پل میں مفتی رشید احمد مرحوم پل میں معین اختر مرحوم
خورشید احمد بھی بے ہنگام اکاسی کے درخت کی طرح قامد، جے ایف ڈھنڈر جیسی گرج دار ”سریلی آواز“ کے ساتھ بہت سارے خوبیوں سے مزین باغ و بہار شخصیت کے مالک ہمارے ”گل کدہ“ کے زمانے ناہجار دوست ہیں۔ اس بار جب لوٹ دور جانے کا موقع ملا تو 8 کے ہندسے جیسے ”کوتک شاہ “ سے مزین ایک ہستی سے سوئے ”لوٹ دور “ملاقات کی ارشاد بھائی نے تعارف مناسب نہیں سمجھا جناب میکی شاہ جہاں صاحب کی ”کُٹھیک سے باہر آتی ہوئی محبت“ نے سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیاکہ شناسی حاصل کر سکیں۔ میں نے اس جلالی شخص سے وہ لاٹھی” ھبہ “کرنے کی فرمائش کی تو ناخوش گوار سا منہ بناکے ”فرمائیش“ کے الفاظ اسپیکر قومی اسمبلی کی طرح”اسپنچ“ کرنے کے آرڈر دئیے اور دوستانہ، دلبرانا قہقہہ کے ساتھ تیسری بار گلے ملے اور فرمایا کہ میرے پاس ان لاٹھیوں کا ایک پورا کمرا سجا ہوا ہے۔ بعد میں یہی محترم مسجد میں ہمارے امام بننے۔اور اپنے مہمان خانے میں درجنوں اقسام کی لاٹھیوں کی تقریب رونمائی کی اور ان کے کمالات، براکات،افادیت اور دریافت پر جامع گفتگو کی۔
”روبن سن کروسو“ کے مترجم جناب فرید احمد صاحب بھی اسی قبیلے کے چشم و چراغ ہیں۔ جس نے ادبی دنیاکے اس عظیم ناول کا کھوار میں ترجمہ کرکے کھوار ادب میں ایک خوبصورت اضافہ کیا ہے۔ روانی سے پڑھنے میں اگر چہ اس فونٹ کی وجہ سے دشواری محسوس ہوتی ہے اگر یہ نوری نستعلیق میں ہوتا تو اور بھی لطف دوبالا ہوجاتا۔ کتاب پڑھتے ہوئے ختم کئے بغیر چارہ نہیں ہر ہر ورق میں اس شعر کے مصداق
؎ ہر لمحہ نیا طور نئی برق و تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہوطے۔
کا منظر نمایا ں ہے۔عزم حوصلہ، امیداور حضرت انسان کی جہد مسلسل کا ایک انمول کارنامہ ہے جو 27 سال تک ایک ایسے جزیرے میں اکیلا زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے کہ جہاں اللہ کے علاوہ کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں پھر بھی اس کی تیاریاں، دنیا داریاں، کھیتی باڑیاں، خانہ داریاں، ہنرکاریاں ہم جیسے لاکھوں کم ہمت اور بے حوصلہ لوگوں، ”تبلیغی یانہ “ اور ”شترمرغیانہ“ سوچ رکھنے والوں کے لیے ”کورونا“ ویکسین سے کم نہیں کہ جس کے مطالیہ کے بعد جینے کی امید اور مایوسیوں کے دروازے بند ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب ہر گھر میں خصوصا بچوں اور نوجوانوں کو لازما پڑھنا بلکہ پڑھونا چاہیے تاکہ ان کے خون میں ”پلیٹ لٹس“ کا اضافہ ہوسکے۔بھائی فرید رضاء صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اس نے کھوار ادب میں ”انگریزی ادب کی پیوند کاری“ کا کامیاب تجربہ کرکے روبن سن کروسو جیسے حوصلہ مندی کا کام کیاہے۔ کتب پر تبصرہ کرنا میرا مقصد نہیں اور نہ میں اس کی اھلیت کا حق رکھتا ہوں ایک قاری اور کتب بین کی حیثیت سے میری گزارش ہوگی کہ جو لوگ بھی یہ تخلیقات چترال جیسے کم آبادی والے علاقے میں چھاپنے کا ہنر اور حوصلہ رکھتے ہیں وہ بڑے باہمت لوگ ہوتے ہیں۔ہم انہیں سر آنکھوں پراگر نہیں بیٹھا سکتے تو کم از کم یہ کتب جو ایک محنت شاقہ، طویل ریاضت، کثیر سرمایہ اور بے پناہ وقت لگانے کے بعد پرھنے کو ملتے ہیں۔”مفت مانگ“کے پڑھنے کے شرف سے ہمیں باہر نکلنا چاہیے۔ میں جب بھی کسی کتاب کی تقریب رونمائی میں دیکھتا ہوں تو پیسے دے کر خریدنے والے قاری ”روبن کروسو“ کے ساتھ موجود بالتوجانوروں سے بھی کم نظرآتے ہیں اور ”مفت اعظم“ کا ایک جم غفیر لگا ہوتا ہے۔ اور مدتوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ”تہ کتابوت بو جم رینیاں لا مت دی کی انزیس کیہ ریما۔“ تو خدا را کتاب پیسے دے کر پڑھنے کی روایت اور عادت جب تک ہم نہیں ڈالیں گے ”ادب کا چراغ“ فروزان نہیں ہوسکے گا۔ پانچ سو یا ہزار کی تعداد میں کتاب منظر عام میں آتے ہیں جو تبصرہ نگاروں، دوست احباب اور پبلشیرز کے دروازوں میں تقسیم ہوتے ہوتے صاحب کتاب کے لیے ”صاحب کتاب“ہونے کے علاوہ کوئی اور مالی فوائد کا ذریعہ نہیں بن پاتے کہ
دوسری کتاب کے لیے مصنف کا ش٭ شہزادہ حسام الملک۔
”بابائے کھوار شہزادہ حسام الملک“ کی تحریر کردہ مختلف مسودات کا خوبصورت مجموعہ ہے۔جو برادر محترم شہزادہ تنویر صاحب نے مدتوں کی جستجو اور مشقت کے بعد منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ کتاب کھوار، کھو تہذیب و ثقافت، کھو تاریخ، رسم رواج، تمدن، طرز حکومت، ریاستی عہدہداراں کی حیثیت اور اختیارات، خصوصا رایت، بول دویو، چھیر موژ، خنازت،جیسے ذمہ داریوں کے حوالے سے جو ہمیشہ سے رئیس اور کٹور حکمرانوں کے ظالمانہ قوانین میں شمار ہوکے حرف تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں کے حوالے اور ضرورت پر تفصیلی مواد پر مشتمل ہے۔ جو عام لوگوں کے علم میں نہیں آج کے جدید دور بھی بھی غریب لوگ محنت مزدوری کے لیے بلوچستان کے کوئلے کے کانوں میں کوئلہ بن کے یا کراچی تک ہوٹلوں میں پرچ پیالے لڑاکے بچوں کے لیے رزق حلال کا بندوبست کرتے ہیں اور چترال بھر میں بھی محنت مزدوری کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا لیکن کسی نے ان محنت کشوں کو ”رایت، بول دویو۔ یا خانہ زت ہونے کا طانہ نہیں دے رہا؟ تو کیوں اس وقت کے محنت گروں کے لیے یہ تعصب بھرے کلمات اور حکمرانوں کے ظلم و زیادتی کے ذمرے میں لائے جاتے ہیں جب مے اسے مقررہ محنت کے عوض یہ لوگ آج بھی ریاستی دور کے زمینات میں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی نسل صاحب جائیداد کہلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اجکل کا سب سے بڑا مسلہ”پٹوار کے ستم“ کا ہے جس نے چترال بھر کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے بھی سابق ریاستی دور سے ہی بعض ایسے مقامات جن میں علاقے کے سرمائی، گرمائی چراگاہوں،جن میں کاغ لشٹ بھی شامل ہے لوگوں کی ملکیت ہونے کے حوالے سے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے مواد موجود ہیں۔چترال میں رسم و رواج طرززندگی کے علاوہ یہاں کہاں کہاں سے منگواکر پھل دار پودے، اجناس، سبزیوں کے تفصلات بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ محدود وسائل کے باوجود عوام الناس کی بہتری کے لیے انجام دئیے گئے خدمات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ”محرکہ“ جو چترال بھر میں لوگوں کی خصوصی دلچسپی کا باعث رہا ہے کے حوالے سے بہت ہی دلچسپ مواد موجود ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ میں ”ارطغرل غازی“ کا ڈرامہ دیکھ رہاہوں۔ ریاستی مہربانیوں اور اعزازت کے حوالے سے اور رئیس دور کے حوالے سے بھی بہت ہی کچھ موجود ہے۔ غرض یہ کتاب کھوار ادب میں زبردست اضافہ ہے یہ بھی ایک ہی نشست میں پڑھنے کی قابل کتاب ہے جو ضخیم ہونے کی وجہ سے شاید ممکن نہ ہو لہذا چند دنوں تک ہم رعایت دینے کو تیار ہیں کیونکہ لوگ رمضان اور کوروناکے صدمے سے دوچار ہیں۔اس میں کھوتاریخ کے حوالے سے بھی دلچسپی لینے والوں کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔
٭ تاریخ چترال، گلگت، دیر، سوات۔
یہ سلجوقی موریخ اخونزدہ مرزافضل واحد بروز صاحب کی…. ”بڑی نام والی چھوٹی سی خوبصورت کتاب“ہے۔
اخونزدہ صاحب کی مہربانی کہ یہ کتاب مجھے خود دستخط کے ساتھ عنایت کی اور کچھ تنقیدی جائزہے کی بھی فرمائش کی۔
چترال والے حصے 90 فیصد وہی مواد موجود ہے جو اخون ذادہ صاحب کے”سابقون اولون“ صحائف میں موجود ہیں۔ اس بار اخون صاحب نے قلم سے تین طرفہ ”ڈرون حملے“ کیے یا کرواتے نظر آتے ہیں۔ ایک گولدور میں میرزا صاحب کا گھر ہے جہاں اخون صاحب نے بیگالی گھوڑے پہ سوار سلجوقی تلوار بے نیام کئے رئیسانہ مستی میں سکندر اعظمی یلغار کئے ہوئے میرزئی مسکرہٹ کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہیں۔اور رئیسوں کو چترال سے ”اڑن چھو“ کرانے میں میرزا غفران مرحوم کو بھی قصور وار تصور کرتے ہیں۔
دوسرا ان کا شکوہ شکایت جو ”شکوہ و جواب شکوہ“ سے بھی طویل ہے جو پوری کتاب کا مرکزی خیال نظرآتا ہے وہ یہ ہے کہ رئیسوں، سلجوقی، سکندری، بیگالی، اخونذائی شہزادے کیوں نہیں کہلائے جاتے۔ ہم بھر پور انداز میں اخون ذدہ صاحب کے ساتھ ہیں کہ ائندہ سے اس غلطی کی تلافی کر دی جائے تاکہ اخون ذادہ صاحب سکون کا سانس لے کر یا کامیابی کے جھنڈے گاڑھ کر بٹ خیلہ، درگئی، کوہستاں پر بھی قلمی یلغار فرماسکیں۔
تیسری شکایت اخون صاحب کو ”ڑاغ سنگین علی“ کی ذات سے ہے۔ کہ اپنے بھیڑ بکریاں کاغ لشٹ میں چھوڑ کر کیسے ایک عظیم بادشاہ رئیس سلجوقی سکندری کے داماد بننے اور بادشاہت پر اکیلے قابض ہوگئے۔کہ کسی سلجوقی نے اس”پژال“ کومسل کے نہ رکھ دیا اور ریاست میں جس کی اکثریت سلجوقی امرا اور شہزادوں پر مشتمل تھی کو بادشاہ کی صاحبزادی کے لے رشتہ بھی نہ مل سکا کہ ایک بے آب گیاہ دشت کے ”چرواہے“ کے ہاتھ میں بیٹی تھما دی۔ مزے کی بعد یہ بھی ہے کہ وہ ”پژال“ نہ صرف سلجوقوں کو جو سات سو سال تک عدل انصاف کے اسلامی نظام سے مساوات کے ساتھ ساتھ دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہا چکے تھے،چترال بھر میں حرف غلط کی طرح مٹا کے رکھ دیتے ہیں کہ ان بے بس رئیسوں کی حمایت میں ان کے دور زریں کے مزے لوٹنے والے اور خوشحال عوام آواز تک نہیں اٹھاتے اور ”ڑاغ سنگین علی“ کو کاغ لشٹ کی راہ دیکھانے کی بجائے بادشاہ بنا کر رئیسوں کو بدخشان کی راہ دیکھا دیتے ہیں۔ بلکہ بعد میں ”شہنشاہ ھند“ سے بھی مالی اور فوجی مدد تک حاصل کرنے کے عزت سے بھی نوازتے ہیں۔اس قسط میں اخونزدہ صاحب ”کارپٹ بمباری“ کرتے ہوئے بابائے ایوب تک کے شجرے کو بھی اکھاڑنے کی ناکام کوشیش کرچکے ہیں۔ چترال بھر کے تخلیق کاراور غیر ملکی رایٹرزبھی یہ شجرہ جو کل کی بعد ہے بابا ایوب اور مغلوں کو ملانے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے ہیں۔ تو سلجوقی مورخ خود سمیت رئیسوں کو سلجوقی، سکندری اعظمی،ذالقرنینی بنانے کی تاریخی سیڑھی بھی بروز کے ایک الحامی تاریخ دان کے ”صحائف فراموزیہ “ کے مضبوط دلائل سے مزین کئے نظر آتے ہیں۔اگر کامیابی کی یہی رفتار برقرار رہی تو مستقبل میں یہ سلجوقی تاریخ دان سیڑھی آسمان سے لگا کے حضرت آدم تک کے شجرہ بناکے واپس کود نے میں دیر نہیں لگا ہیں گے۔ چوتھی نئی بات یہ ہے کہ صاحب کتاب نے پوری چترال کی آبادی کو ” کیلاش“ سکندرے کہہ کر چترال کے کھو قبائل کو سرے سے ماننے سے انکاری ہیں جبکہ چترال میں یہ موقف رہا ہے کہ چترالی نعنی کھو قبائل کافر دور سے ہی یہاں آباد تھے بعدمیں کیلاش یہاں وارد ہوئے۔ صاحب کتاب جس انداز میں سکندرے قبائل کی آمد اور سلجوقی آبادی کا تذکرہ کر رہے ہیں اس حساب سے اگر یہاں آباد کاری ہوتی تو چترال کی آبادی کو کڑوروں میں ہونا چائے تھا نہ کہ چند لاکھ۔ بحرحال کتاب دلچسپ ہے، سوات کے حوالے سے زیادہ تر مواد میرے اخباری زمانے کے دوست برادر فضل ربی راہی صاحب کے تحر یر کردہ مواد سے لیے گئے ہیں۔ اور ولی سوات کے حوالے سے بھی بعض باتوں کی کمی اس میں موجود ہے خاصکر چترال ”ڑاغ سنگین علی“ خاندان سے ان کے رشتے داری اور ریاست کے خاتمے کے حوالے سے بھی کچھ تشنگی مجھے محسوس ہوئی۔ اخونز دہ صاحب سے یہی گزارش ہے کہ تاریخ میں صرف ان کا نام لیاجاتا ہے جو مرکز سے وابسطہ رہتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح خود آپ اپنی محنت شاقہ سے تاریخ میں سلجوقیوں میں خود کو رہتی دنیا تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں باقی بھی سینکڑوں سلجوقی آئے اور گئے لیکن ہر کوئی ”اخونزدہ بروز“ بننے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ محبوب صوبیدار مرحوم کے دلچسپ گفتگو سے بات ختم کر نا چاہتاہوں تاکہ ”اخونزدہ صاحب اور اس جیسے بے چین روحوں“ کو قرار آسکے۔جغور میں ایک راہ گیر گاڑی کے ٹکر سے اللہ کو پیارے ہوگئے راستہ بند کرکے لوگ احتجاج کررہے تھے کہ پولیس کاروائی کے لیے پہنچا گیا اور تھانیدار صاحب اپنے ماہرانہ تفتیش اور محکمانہ ڈانڈے کے استعمال کے ذریعے مجرم تک پہنچنے کے دعویٰ فرما رہے تھے کہ بتایا جائے کہ کس نے یہ خون ناحق کی تاکہ حوالات کی سیر فرماسکے۔ مرحوم صوبیدار وارد ہوئے اور تھانیدار کی تیس مارخانی ڈائیلاک کو برا مناتے ہوئے آگے آئے اور کہا”تھانیدار صاحب پرچہ کاٹنا ہے تو اللہ میاں اور حضرت اسرائیل ؑ کے خلاف کاٹ دیجیے یہ کام ان ہی کا ہے۔“ تو حضرت اخونزدہ صاحب یہ عزت و ذلت دینے والا اللہ تعالیٰ اب بھی موجود ہے جسے چاہئے ایک غلام ذادے سے سلجوقی سلطان بنا ڈالے جسے چاہے کاغ لشٹ کی پژالی سے اٹھا کر رئیس کی سلطنت سمیت دامادی کے شرف سے بھی مشرف کروادے۔ اگر یہ کھیل سب تقدیر اور اللہ کا ڈیزان کردہ نہ ہوتا تو آج… افضل الملک۔ نظام الملک۔ امیر الملک، شیرافضل خان کے جانشین چترال کے سیاہ سفید کے مالک ہوتے لیکن یہ عزت شجاع الملک کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کی تھی جو اسے مل گیا اب دل جلانے سے کیا فائدہ پھر بھی ہم چترال کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ سلجوقی اگر کہیں موجود ہیں تو انہیں شہزادے کے نام سے پکارا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ”پھل کا رس نچوڑا“ جاچکا ہے اب یہ باتیں بے معنی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے یہ سب باتیں ماضی کے دل بہلانے کے ذرائع تھے اب وہ شخص چترال کا بیٹا ہے جس کے ہاتھ میں ہنر، تعلیم، عہدہ اور سب سے بڑھ کر چترال اور چترالیوں کے لیے ” درد ر کھنے والا دل“ موجود ہے چاہے وہ بوروغل کا پژال ہو یا چترال کے کسی گمنام گاؤں کے گمنام شخص کا بیٹا لیکن”صلاحیتوں سے لیس“ ہے تو یہ….. دور…. اسی کا ہے۔
٭ کھوار کی تاریخ۔
نقیب اللہ رازی صاحب… بھی ہمارے چترال کے قابل فخر فرزند ہیں جنہوں نے کھوار علم و ادب کے حوالے سے کارہایہ نمایاں انجام دیتے آئے ہیں۔ کئی تخلیقی کتب کے مصنف ہیں نعتیہ کلام کے حوالے سے چترال بھر میں استاد ماننے جاتے ہیں سب سے بڑھ کر ایک اچھے انسان اور عالم دین ہیں۔ بہت ہی گہرائی میں جاکے تخلیقی مراحل طے کرتے ہیں جن میں غوطہ زنی کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ کھوار کی مختصر تاریخ ان کی نئی تصنیف ہے جو میں نے صرف فیس بک میں اشتہار کی صورت میں دیکھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ جو یقینا ایک منفرد مقام کا حامل ہوگا۔ میں رازی صاحب سمیت تمام دیگر مصنفیں کو مبارک بعد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ”کورونائی لماحات“ سے بھر پور فائدہ اٹھاکر ”کورٹین“ ہی میں یہ تخلیقات سامنے لائے جو ہمارے لیے برکتوں بھری ”ادبی برسات“ سے کم نہیں۔ دعا ہے کامیابیوں اور کامرانیوں کا یہ سفر جاری و ساری رہے اور چترال کا امن سلامتی ہمیشہ برقرار رہے اور یہاں تعاصب کی ہواؤں کا گزر نہ ہو۔ آخر میں پھر گزار ش ہے کہ ان کتابوں کو مفت مانگ کر بے وقعت نہ کیا جائے اور نہ ہی مصنف حضرات ”یہ حاتم طائیانہ“ فیاضی جاری رکھیں تاکہ پیسے دے کر ”کتاب بینی“ کو فروغ مل سکے۔ یہ کتاب چترال بھر کے بک اسٹال میں دستیاب ہیں اگر چترال بازار میں فیض کتاب گھر میں جائیں تو اس گناہ گار کا حوالہ دے کر میرے کھاتے میں چائے کے ساتھ یہ کتاب حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ جب سے ہمارے استاد فیض محمد دام براکات اس جہاں سے رخصت ہوئے ہیں تو چائے کا کوئی پوچھتا ہی نہیں۔
٭٭٭٭
وق پیدا ہوسکے۔ لہذا گزارش یہی ہے کہ مفت کتاب بینی سے اجتناب کیا جائے تاکہ ادب کی سانسیں بحال رہ سکیں۔