قومی سماجی معاشی رجسٹری۔۔۔محکم الدین ایونی
حکومت نے قومی سماجی معاشی رجسٹری کے نام سے درست معلومات اور اعدادو شمار کے حصول کیلئے جدید ترین خطوط پر ڈیٹا جمع کرنے کا آغاز کر دیا ہے، تاکہ ملک کے تمام گھرانوں کے معاشی حالات، گھر کے اثاثہ جات قومی شناختی کارڈ کے تحت رجسٹرڈکئے جاسکیں۔ اور اسی کے مطابق مستقبل میں تعلیم وصحت اور بنیادی سہولیات سمیت مختلف سماجی و ترقیاتی سرگرمیوں کے لئے منصوبے تیار کئے جا سکیں۔ اسے حکومت کی طرف سے قومی خوشحالی سروے کا نام دیا گیا ہے۔ ا ور مرحلہ وار پروگرام کے تحت سروے کے ذریعے پورے ملک کے ہر گھرانے، ہرطبقے اور علاقے کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں گی۔ اس رجسٹری کی یہ تعریف بھی کی جارہی ہے۔ کہ تمام معلومات گھر کی دہلیز پر کمپیو ٹرائزڈ سسٹم کے ذریعے گھر کے سربراہ سے حاصل کئے جائیں گے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے۔ کہ اسی سروے کی بنیاد پر وطن کارڈ، خدمت کارڈ، صحت کارڈ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام و دیگر حقداروں کا تعین کیا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے یہ تاکید بھی کی جارہی ہے۔ کہ تمام افراد خانہ کے شناختی کارڈ کی کاپیاں سروے ٹیم کو فراہم کئے جائیں۔ اور بچوں کے فارم (ب) نہ ہونے کی صورت میں صحیح و مکمل کوائف درج کئے جائیں۔ تعارفی خاکے میں جن باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا اہم سروے خیال کیا جاتا ہے۔ اور ملکی ترقی کیلئے اسے سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس سروے میں تعلیم، روزگار، بیماری، معذوری اورگھر کے افراد و جملہ اثاثہ جات وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں مختلف اوقات میں سروے ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ہر مرتبہ سروے بے شمار اغلاط کا مجموعہ قرار دیا جاتے رہے ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اس کی واضح مثال ہے۔ جس کا ریکارڈ سامنے آنے پر معلوم ہوا،کہ مستحقین میں ایسے افراد شامل تھے۔ جو اپنے وسائل سے کئی خاندانوں کی کفالت کرنے کے قابل تھے۔ لیکن غلط معلومات فراہم کرکے، سیاسی اپروچ کے ذریعے یا سروے ٹیم کی طرف سے بے جا ہمدردی نے اُن کو ایسے افراد کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ کہ مستحقین کے صف میں شامل ہو کر غریبوں کی امداد کو ہتھیا گئے۔ اسی طرح محکمہ زکواۃ جو خالصتا غرباء کی امداد کا ادارہ ہے۔ اس میں بھی بسا اوقات ایسے لوگوں کے ساتھ مدد کی جاتی ہے۔ جوکہ متمول خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالیہ سروے اپنی نوعیت کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن سابقہ تجربات سے ذہن میں یہ سوالات اٹھتے ہیں۔ کہ کیا موجودہ سروے کے جملہ معلومات درست ہو سکتے ہیں. کیا پھر سے غیر مستحق کو مستحق بنانے گھریلو اثاثہ جات غلط اندراج کرکے حکومتی مراعات حاصل کرنے کی کوشش تو نہیں کی جائے گی۔ بطور ذمہ دار شہری کے ہ میں اپنے تمام کوائف ایمانداری کے ساتھ سروے ٹیم کو فراہم کرنے چاہیں۔ لیکن اس کا امکان اس سروے میں بھی بہت کم نظر آتا ہے۔ عوامی حلقوں کی طرف سے ابھی سے یہ بات گردش کر رہی ہے۔ کہ اس سروے کے بعد حکومت کی طرف سے کئی قسم کے ٹیکسز کے لاگوہونے کے امکانات ہیں۔ جبکہ عوام پہلے ہی سے بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں پیس رہی ہے اور ہلاکت کے قریب ہے۔ جس میں سفید پوش طبقہ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ جو اپنی مجبوری کسی کے سامنے بیان بھی نہیں کر سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ موجودہ سروے حکومت کی طرف سے حقیقتا قومی سماجی معاشی خوشحالی سروے ہو۔ لیکن عوام میں ابھی سے اس حوالے سے ایک خوف پایا جاتا ہے۔ اور اسے آئی ایم ایف خوشحالی سروے قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کی تکمیل کے بعد عوام کا تیل نکالنے کا عمل شروع ہو گا۔ اور مہنگائی، بے روزگاری میں رہی کسر ناقابل برداشت ٹیکسز میں پوری کی جائے گی۔