تازہ ترین خبروں کے مطابق وطن عزیز پاکستان میں انیس بیس کا کوئی فرق نظر نہیں آرہا البتہ اٹھارہ اور انیس کی پنجہ ازمائی شروع ہوچکی ہے۔18اُس آئینی ترمیم کا نام ہے جس کو موجودہ حکومت نئی ترمیم کے ذریعے ختم کرنا چاہتی ہے۔19کاہندسہ اُس مرض کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو ملک پر حملہ آور ہے اور جس کا نام کورونا یعنی کویڈ۔19(Covid-19)ہے۔درحقیقت حکومت وقت کی پوری توجہ اس مرض پر مرکوز ہونی چاہیئے جو22کروڑعوام میں سے اپنا حصہ لینا چاہتا ہے۔اٹلی،سپین،برطانیہ،امریکہ اور ایران کی طرح لاشیں بکھیرنا چاہتا ہے مگر حکومت نے فوراًپینترا بدل کرساری توجہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے پرمرکوزکردی ہے سوال کرنے والے پوچھتے ہیں ایسا کیوں ہوا؟جواب دینے والے کہتے ہیں ایسا عین اسی وقت ہونا چاہیئے تھا۔اٹھارویں ترمیم کے حق میں بھی بیانات آرہے ہیں اس کے خلاف بھی آوزیں اُٹھ رہی ہیں ”دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی“اس وقت مرکزی کرداروں میں تین طبقے نمایاں ہیں جنہیں انگریزی میں سٹیک ہولڈراور اردو میں ”شریک مفاد“کہا جاتا ہے۔پہلا طبقہ وہ ہے جس کو اسٹبلشمنٹ کہا جاتا ہے اس میں سول اور فوجی بیووکریسی دونوں شامل ہیں۔دوسرا طبقہ وہ سیاسی جماعتیں ہیں جن کے پاس موجودہ حالات میں اقتدار اور حاکمیت کی مہر ہے۔اس مہر کو ”مہرہ“بھی کہا جاسکتا ہے۔تیسرا طبقہ ان سیاسی جماعتوں کا گروہ ہے جنہوں نے بڑے جتن اور بڑی مشکل کے ساتھ اٹھارویں ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا۔شریک مفاد گروہوں یا سٹیک ہولڈرز کے درمیان مفادات کاعجیب اشتراک ہے۔اسٹبلشمنٹ اس ترمیم کو ختم کرکے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والا فنڈ واپس لینا چاہتی ہے ساتھ ساتھ تعلیم،ماحول،صحت اور ثقافت کے شعبوں میں صوبائی حکومتوں کے موجودہ اختیارات دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینے پر زور دے رہی ہے یعنی پیسہ بھی ہے اور اختیار بھی،جو سیاست دان اس وقت حکومت میں ہیں اُن کے مفاد میں یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے ذریعے پیسہ اوراختیاران کے ہاتھوں میں آئے۔جس طبقے نے آصف علی زرداری کے دور حکومت2008سے2013کے دوران یہ ترمیم منظور کروایا تھا اُس طبقے کا خیال ہے کہ ہم نے تاریخ ساز کام کیا تھا یہ کام اسی طرح جاری رہنا چاہیئے وہ کہتے ہیں کہ ہم اٹھارویں ترمیم کو ختم نہیں ہونے دینگے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قوم ایک عالمی وبا کویڈ۔19سے نبرد آزما ہے اور حکمران قومی مفادپر پسِ پُشت ڈال کر اٹھارویں ترمیم کو چھیڑنا چاہتی ہے جو بے وقت کی راگنی ہے کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں گویا یہ ایک دنگل ہے جس میں 18اور19کی پنجہ آزمائی ہونے والی ہے برسرزمین حقائق پر طائرانہ نظر دوڑائی جائے توحالات ایسے ہیں کہ حکومت کے ایوان سے اتحادی اُٹھ اُٹھ کرجانے کی تیاری کررہے ہیں۔حزب اختلاف کے گروہ کایہ حال ہے کہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔البتہ اسٹبلشمنٹ اپنی جگہ چٹان کی طرح مضبوط کھڑی ہے اور دعوت مبارزہ دے رہی ہے دنگل میں ایک اور قوت بھی اُترنے والی ہے جس کو قومی احتساب بیورو یعنی نیب کہا جاتا ہے اس کے ہاتھ میں ترب کے پتے ہیں یہ پتے کھبی سوکھتے ہیں کبھی دیکھتے ہی دیکھتے ہرے ہوجاتے ہیں چنانچہ مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ قاف کے لیڈروں کے خلاف 20سال پرانے مقدمات کو از سر نو کھولنے کی تیاری ہورہی ہے یا بقول شیخ رشید نیب کا ادارہ ٹارزن کی طرحملہ آور ہونے جارہا ہے اس وقت ٹارزن آئے گا تو وکٹ کے دونوں طرف کھیلے گا۔گویا اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرے گا گذشتہ سال نیب کے سربراہ نے ایک سوال کے جواب میں سینئر اخبار نوسیوں کوبتایا تھا کہ ہم نے فائلیں کھولیں توحکومت گرجائیگی اُن کا اشارہ مسلم لیگ قاف کے لیڈروں کے خلاف بنی ہوئی فائلوں کی طرف تھا تازہ ترین خبروں کے مطابق ان فائلوں پر سے گرد جھاڑی گئی ہے۔چوہدری برادران کو ہراسان کرنے کا کھیل شروع ہوا چاہتا ہے اور چوہدری برادران نے نیب کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے شریف خاندان کے خلاف مزید مقدمات کھل رہے ہیں شہباز شریف کو تین بار نیب عدالت میں طلب کیا گیا وہ تیسری طلبی پر پیش ہوتے تو اگلی پیشی کیلئے 2جون کی تاریخ دیدی گئی۔بعض حکومتی وزراء کو بھی نیب کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جارہاہے اور چند سال پرانے فائل دکھائے جارہے ہیں۔یہی وہ فائل ہیں جن کو ترب کے پتے کہاجاتا ہے گویا میدان سج رہاہے۔اس میدان میں کھلاڑی آرہے ہیں جنکو2000اور2002کے درمیانی عرصے میں نیب کی سان پر رکھا گیا تھا اور اسٹپلشمنٹ نے مطلوبہ مقاصد آسانی سے حاصل کئے تھے ایک گمنام شاعر نے علامہ اقبال کے شعر میں خود ساختہ ترمیم کرکے کہا تھا۔
کوئی نیب آجائے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
راتوں رات مسلم قاف بھی بنی تھی اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بھی وجود میں آئی تھی جس کے چار”پی“تھے۔یعنی PPPPجوجنرل مشرف کی پاک وصاف حکومت میں بڑی بڑی وزارتوں کیلئے خود کو اہل قرار دلواتی تھی یہ معجزہ اُس پہلون کا تھا جسے عرف عام میں نیب کانام دیا جاتا ہے جو اپنی بغل سے فائل نکال کر ہواوں کا رخ بدل دیتا ہے۔یہ پہلوان اس وقت پھر دنگل میں کود پڑا ہے اور قریب ہے کہ توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوجائے اس توڑ پھوڑ میں کچھ میرے اِدھر سے اُدھر ہوگئے تو بہت سے میرے اُدھرسے اِدھر ہوجائینگے اور راتوں رات نئی ترمیم کی منظوری کے لئے فضا اس طرح سازگار ہوجائینگی جس طرح چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اور چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے آئینی ترمیم کی کامیابی کے لئے دیکھتے ہی دیکھتے سازگار ہوئی تھی۔کچھ لوکچھ دو کے اس کھیل میں شاید58(2) بی کی تنسیخ بچ جائیگی۔خیبرپختونخواہ کانیانام بھی بچ جائے گا۔کچھ اور مفادات ہونگے جن پرہاتھ کوہولا رکھا جائے گا باقی رہے نام اللہ کا سیانے کہتے ہیں کوئی ترمیم ایسی نہیں جس میں پھر کوئی ترمیم نہ ہوچنانچہ ہم نے آٹھویں ترمیم کے مقابلے میں سترھویں ترمیم کو آتے ہوئے دیکھا پھرسترھویں ترمیم پر اٹھارویں ترمیم کا بلڈوزر چلتے ہوئے دیکھا اب اٹھارویں ترمیم پر ایک اور بلڈوزر کو چلتا ہوا دیکھینگے۔علامہ اقبال کہتا ہے۔۔
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات