چترال(نمائندہ چترال میل) کاش آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکولز جیسے ادارے ہمارے ملک میں اور بھی ہوتے۔ ہم پرنس کریم آغاخان کے شکرگزا ہیں کہ انہوں نے ان پہاڑوں کے درمیان ایسے تعلیمی ادارے بنائے۔ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں حکومتی ادارے نہیں پہنچ پاتے اور اس وجہ سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن آغاخان کے ادارے ان علاقوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اس لیے ایسی شخصیات کی ہمیں قد ر کرنی چاہیئے۔ یہ باتیں آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول سین لشٹ چترال کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے چیئر مین تحریک نوجوانانِ پاکستان اور کشمیر محمد عبداللہ گل نے کہی۔
انہوں نے کہا کہ اس اسکول کے بارے میں مجھے تفصیلی بریفنگ دی گئی اور اسکول کی کارکردگی اور سرگرمیوں کو دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا۔میری خواہش ہے کہ ہمارے ملک کے سارے سکول ایسے ہوں۔ ایسے اداروں کے پیچھے ایک کلیر وژن کام کرتا ہے۔ اور ایسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ان میں ایک ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان بھی ہے۔
انہوں نے طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس تعلیمی ادارے میں موجود ہیں، یہاں ڈسپلن ہے،محنت ہے اور تمام حوالے سے میرٹ نظر آتا ہے۔جس کی بحیثیت قوم ہمیں شدید ضرورت ہے۔آپ کے اس ادارے میں ایک صحت مند مقابلے کا رجحان موجود ہے۔بڑے بڑے ادارے تعلیم کے حوالے سے کام کررہے ہیں لیکن اس جیسا معیار ان اداروں میں ہمیں نظر نہیں آتا۔
انہوں نے موجودہ زمانے میں تعلیم اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے بے غیر دنیا میں کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔تعلیم یافتہ لوگ کوئی بھی کام کریں گے تو احسن طریقے سے وہ کام سر انجام دیں گے۔
اب سوچنا یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں تعلیم کا یہ پراسس عملی شکل میں موجود ہے یا نہیں۔کیونکہ قران میں بھی سب سے پہلا لفظ جو ناز ل ہوا تھا وہ اقرا تھا۔ اس لفظ سے مراد کوئی مخصوص علم نہیں بلکہ ہر قسم کا علم ہے جس سے معاشرے کو فائدہ پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ چیلنجز انسانی زندگی میں ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اصل کام یہ ہے کہ ہم ان چیلنجز سے مقابلہ کس انداز سے کرتے ہیں۔اور کس قسم کی منصوبہ بندی سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انسان کا وژن کلیر ہونا چاہیئے۔کھبی بھی اپنے وژن کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار نہ ہو اور اپنے اس کلیر وژن کے ساتھ ہمیشہ مخلص رہیں۔ یہی اخلاص ہمیں ان لیڈرز میں نظر آتا ہے جنہوں نے پاکستان بنایا ا ن میں سے ایک سر آغاخان بھی تھا۔ ان کا اخلاص یہ تھا کہ جب پاکستان بن گیا تو تنخواہ دینے کے پیسے نہیں تھے انہوں نے اپنی جیب سے یہ پیسے ادا کیے۔یہ اپنے ملک سے اخلاص کی ایک مثال ہے۔ ۱۹۰۵ میں ایجوکیشن کا کوئی تصور موجود نہیں تھا سر آغاخان نے گوادر میں ایک سکول کی بنیاد رکھ کے وژنری ہونے کا ثبوت دیا اور آج گوادر ایک ہپ بن گیا ہے۔یہ وژن اور اپنے وژن کے ساتھ اخلاص کی ایک مثال ہے۔
وژن اور اخلاص کے ساتھ ایک انسان میں کردار بھی ہونا چایئے۔ وژن کو اخلاص سے آگے لے جاتے ہوئے بہت سے مشکلات اور رکاوٹیں سامنے آتے ہیں۔ آپ اپنے کردار کے ذریعے ان رکاوٹوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔
بلند کردار کی مثال میں رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے سامنے ہے کہ آپؐ نے ۴۰ سالہ دور میں اپنے اخلاق کے ذریعے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔
اس خوبصورت محفل میں پرنسپل آغا خا ن ہائیر سیکنڈری اسکول سین لشٹ چترال طفیل نواز، سی اے ای ایچ کے روح رواں بہار احمد، معروف سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر اور عمیر خلیل کے علاوہ اسکول ہذا کے اساتذہ ٔ کرام اور دیگر مہمانانِ گرامی نے شرکت کیں۔
پروگرام کے آخر میں پرنسپل طفیل نواز نے معزز مہمان کو اسکول کی طرف سے یادگاری شیلڈ پیش کیا۔