دھڑکنوں کی زبان۔۔بازار میں افطاری۔۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔بازار میں افطاری۔۔۔محمد جاوید حیات
بازار میں افطاری
چترال شہر میں میں غریب الوطن ہوں۔مسافر کی زندگی کیا ہوتی ہے۔بس وقت کاٹتا ہے۔زندگی کی گاڑی کی کیا ہے چلتی ہے۔دنیا میں انسان کی زندگی کو غریب الوطنی سے تشبیہ دی گئی ہے۔اس لئے کہ اعتبار نہیں۔زندگی دایمی ہوتی تو کیا برائی تھی۔۔یقینا برائی تھی۔۔کیونکہ اس کو قرار نہیں۔دسیوں سال کے شاہنشاہ بھی آخر کو فنا کی آندھی میں تنکے کی طرح اُڑ جاتا ہے۔مسافر کی زندگی اچھی ہے۔۔پل کو ٹھرا۔۔آرام کیا۔۔اُٹھا۔۔روانہ ہوا۔میں چترال شہر میں غریب الوطن ہوتا ہوں۔شاہی بازار میں حاجی ملفت خان کاہوٹل جو چترال کی تاریخ دھراتا ہے۔میں آج کل صدیق خان بیٹھتے ہیں جو حاجی ملفت خان مرحوم کے واقعی اصل جانشین ہیں۔صدیق کا چہرہ،چہرے پہ مسکراہٹ،لہجہ،انداز،مہمانوں سے سلوک سب بے مثال ہیں۔ہوٹل میں کھانا بہت واجبی ہے۔۔نہایت سستے داموں سیدھا سادہ کھانا ملتا ہے مگر خالص دودھ کی کڑک چائے سب کو کھینچ لاتی ہے۔مہمانوں میں یا تو بہت غریب نادار آتے ہیں۔۔یا تو فقیر منش آتے ہیں۔جو سندلیوں،چوکیوں،اور فرشی نشست کرکے پیٹ میں دو چار نوالے ڈال کر بھوک کی آگ بجھا کے نکلتے ہیں۔یاں کی سادگی میں بڑا سکوں ہے۔یہاں پہ صبح کاناشتہ کڑک چائے کے ساتھ مزہ دیتا ہے۔ان کے باقاعدہ مہمانوں میں عبدالوالی خان خاموش،محمد حسین میکی،سردار میکی نمایاں ہیں۔ان کیساتھ نشست میں زندگی کا لطف ملتا ہے۔پرانی یادیں دھرائی جاتی ہیں۔چترال کی تہذیب و ثقافت پہ بات ہوتی ہے۔بدلتے دور کے تقاضے زیر بحث لائے جاتے ہیں۔اس ہفتے اتوار کی چھٹی پر بمبوریت سے چترال آیا تو وہی غریب الوطنی تھی۔۔خاموش نے خوشخبری سنائی کہ صدیق کے ہاں مزے کی افطاری ہوتی ہے۔افطاری سے پندرہ منٹ پہلے پہنچے تو بھانت بھانت کے مسافر تھے۔کسی نے اپنے ساتھ دو پکوڑے لائے تھے۔کسی کی جیب میں دو کھجوریں تھیں۔کوئی چائے کاارڈر دے رہا تھا۔لیکن آہستہ سے۔۔کوئی ہلاگلا نہیں تھا۔خاموشی تھی۔۔سکوں تھا۔۔صدیق ترت پھرت سے مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھا۔ہوٹل کے بیرے خاموشی سے کام کررہے تھے۔۔روزہ داروں کے چہرے مطمئن تھے۔۔دعائیں ان کی آنکھوں میں چمک بن کر اُتر آئی تھیں۔سب مسافر تھے ان کاکوئی گھر نہ تھا۔ان میں بیکاری بھی تھے انکومفت میں افطاری دی جاتی تھی۔سب کے سامنے کسی کی خواہش کے مطابق خردو نوش کی چیزیں رکھی گئیں۔خردو نوش کی چیزیں کیا تھیں۔۔بس ٹنڈا اور چاول۔تندور کی گرم روٹی اور کڑک چائے۔۔آگے ماکلات ومشروبات جو بڑوں کے حصے ہیں ان سے ہم سب محروم تھے۔اذان کا انتظار ہونے لگا۔سب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔۔اپنے رب کے حضور اپنی حاجتیں پیش کیں۔التجا خاموش دعا بن کے ہر دل سے نکلی۔اور سوئے عرش روانہ ہوئی۔ایسا لگتا تھا کہ دعائیں قبول ہو رہی ہیں اس لئے کہ یہاں پہ زندگی مصنوعی نہیں تھی چکا چوند نہیں تھا۔۔نعمتوں کی بھر مار اور ناشکری کا انبار نہیں تھا۔تکلفات نہیں تھیں۔میں نے ٹنڈا گوشت اور تندور کی روٹی کا مزہ چکا۔۔ پھر کڑک چائے پی لی۔صدیق کی مسکراہٹوں کا لطف لیا۔بس یہ افطاری تھی۔سادگی اسلام میں ہے۔سادگی میں اطمنان ہے۔خوشی ہے مسرت ہے صدیق کا مسکراتا چہرہ مطمین تھا۔مہمانوں میں کوئی برائے نام غرور،رعونت،خود نمائی،اسراف وغیرہ کا شائیبہ تک نہ تھا۔سب اللہ کا شکر اداکر رہے تھے ان کو کسی کے بڑے دسترخوان کی فکر نہ تھی۔صدیق کی پر خلوص میزبانی ایک طرح کی نعمت تھی۔بیروں کو ہدایات دینا،ان کو کام سمجھانا،ان کی رہنمائی کرنا اور شام کو ان کی مزودری ان کے ہاتھوں میں تھما دینا ایک نرالہ دستور ہے۔۔رسول مہربان ﷺ نے فرمایا کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری اس کو دیدو۔۔صدیق اس پہ کاربند ہے۔۔بازار میں افطاری میں مزہ آیا۔۔زندگی بہت خوبصورت لگی۔روزہ عبادت لگا۔۔عابد اور معبود کے درمیان ایک نمایان رشتہ۔۔ملک خدداد کے سارے دستر خوان اس طرح سادہ ہوں تواطمنان خود آئے گا۔۔قناعت رب کی عنایت ہو تی ہے۔قرآن نے کہا کہ انسان نہ زمین پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں سے اوپر تک جاسکتا ہے۔ہاں انسان نادان ضرور ہے۔۔