دھڑکنوں کی زبان۔۔حسن کار کردگی کا انعام اور اساتذہ۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

حسن کار کردگی کا انعام اور اساتذہ
ہر سال23مارچ کے دن ملک خداداد میں ایک جشن کا سماء ہوتا ہے۔اس دن ہمارے بڑوں نے ایک قرارداد کے ذریعے ایک مصمم ارادہ کیا کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے لئے ایک الگ ریاست کی تشکیل کرینگے جہان پر وہ اپنی مرضی سے اپنے دین کے مطابق زندگی گذاریں گے۔یہ ایک سنگ میل تھی ایک خواب تھا ایک جدہ پیمائی تھی قافلہ سات سال کی مختصر مدت میں اپنی منز ل پر پہنچ گیا۔اس مبارک دن کو ہم دھوم دھام سے مناتے ہیں۔اس دن ملک و قوم کی نمایاں خدمت پر افراد کو ”حسن کار کردگی“ دی جاتی ہے۔ہر شعبہ زندگی میں ایسے نمایان افراد ہوتے ہیں جو اس انعام کے حقدار قرار دئے جاتے ہیں۔مگر ایک استاد وہ طبقہ ہے جس کو کبھی اس انعام کا مستحق قرار نہیں دیا گیا۔سوال ہے کیا اس کا کوئی شعبہ نہیں ہوتا۔کیا وہ ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں کرتا۔کیا اس کا کا م مہا کام نہیں۔کیا وہ ڈرامہ آرٹسٹ،گائیک، سماجی کارکن،کھیلاڑی وغیرہ کی صف میں بھی اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔کیا اس کی دن رات کی محنت،نونہالوں کی تعلیم و تربیت اس معیار کانہیں کہ اس کو شاباشی دی جائے۔وہ اگر زندہ قوم کا استاد ہوتا تو اس کو ہر سال اس انعام کا مستحق قرار دیا جاتا۔وہ کوئی پرائمری کا اُستاد ہوتا۔کسی سکنڈری کا استاد ہوتا۔وہ کسی ٹاٹ کے سکول کا استاد ہوتا۔وہ گرمی سردی سے بے نیاز،اپنی شخصیت کی چکا چوند سے بے نیاز ایک عام سا آدمی ہوتا۔یہ استاد ہوتا۔اس کی خدمات کو سراہا جاتا۔یہ وہ عام سا آدمی جس کو نہ کوئی سپاہی سلوٹ مارتا ہے۔نہ ڈرایؤر اس کو دیکھ کر اپنی گاڑی کی رفتار کم کرتا ہے نہ گاؤں کا ریٹائرڈ صوبیدار اس سے تپاک سے ہاتھ ملاتا ہے۔نہ اس کو کسی جگرگے شرگے میں بلاتے ہیں۔نہ کوئی سیاسی مستنڈے اس کو کسی قابل سمجھتا ہے نہ کوئی ان پڑھ والد اس کو صاحب کہنے کی غلطی کرتا ہے۔یہ استاد ہے۔۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اگر یہ استاد کسی وزیر اعظم کا بھی استاد ہو تو وہ وزیر اعظم اس کو بھول جاتا ہے۔اس کو سب یاد آتے ہیں خواہ وہ فنکار،اداکار،گائیک ہی کیوں نہ ہو۔ایک استاد ہی ہے جو صرف بھلانے کے لیے ہے۔۔کئی23 مارچ آکے جاتے ہیں مگر وہ کسی کو یاد نہیں آتا۔اگر یہ باشعور قوم ہوتی تو ہر سال کسی پرائمری یا سکنڈری سکول کے ایک بے مثال استاد کوڈھونڈا جاتا اس کو حسن کار کردگی دی جاتی اور ثابت کیا جاتا کہ اس قوم کا کوئی معمار بھی ہے۔خیر میری عمر تو ستر سال نہیں ہے لیکن میری پاک دھرتی کی عمر ستر سال سے اوپر ہے۔اس دورانئے میں صرف استاد اس شاباشی کا منتظر رہا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ خدانخوستہ ہم بانجھ قوم تو نہیں ہیں کہ ہم اچھے برے میں تمیز کرنے کے اہل نہیں ہیں۔اگر کوئی سائنسدان کوئی نئی چیز دریافت کر رہا تو کیایہ سائنسدان کبھی اس کے ہاتھ پر ورش نہیں پائی۔اگر کوئی سپاہی اپنی جان دے رہا ہے تو کبھی یہ سپاہی اس کے سامنے بیٹھ کر الف با نہیں پڑھ رہا۔۔اگر کوئی لکھاری کتاب لکھ رہا ہے تو کبھی یہ تختی لکھ کر اس کو دیکھایا نہیں۔یہ سوچنے اور احساس کرنے کی باتیں ہیں۔موجودہ حکومت کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ استاد کو عزت دینا چاہیے۔اس کو معاشرے میں نمایاں کرنے کے لیے یونیفارم پہنے کا کہا جارہا ہے یہ بہت ہی اچھا قدم ہے۔۔اس کو عزت دو کا نعرہ لگایا جارہا ہے البتہ اس کو عزت دیتے ہوئے اس کے کام اور کار کردگی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔استاد کا کام مہا کام ہے اور بہت خوبصورت کام ہے۔اگر سوچا جائے تو یہی انعام کا مستحق ہے۔زندگی جہد مسلسل ہے اور اس جہد مسلسل کی تربیت دینے والا فرد کسی انعام کامستحق نہیں۔ میرے خیال میں یوں 23 مارچ منانا استاد کے بے غیر 23 مارچ ہوتا ہے اور حسن کارکردگی کا انعام بھی پھیکا لگتا ہے۔اس کی شان و شوکت میں اضافہ کرنے کے لئے استاد کو انعام سے نوازا جائے۔۔۔استاد کو عزت دوکا نعرہ بڑا دلکش نعرہ ہے اور استاد کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے آپ کو اس عزت کا مستحق بنائے۔استاد ہر دور میں انمول ہے۔اس کا احترام کرنا بہر حال عیب نہیں۔