خبروں میں دو سے زیادہ معتبر شخصیات کے حوا لے سے بے وقت کی یہ راگنی آرہی ہے کہ وسط مدتی انتخا بات پر غور کیا جا سکتا ہے تا کہ دو تہا ئی اکثریت والی پارٹی کو حکومت ملے آئین سازی اور آئینی ترامیم کی راہ ہموار ہو جائے اور ملک کو مو جودہ بحرانوں سے نکا لا جا سکے ایسی باتوں کو شوشہ یا افواہ بھی کہا جا سکتا ہے مگر بسا اوقات ایسی افواہیں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں پہلے احتساب پھر انتخاب کی بات بھی افواہ تھی دو مہینوں کے اندر حقیقت بن گئی اور انتخا بات 8سالوں کے لئے ملتوی ہوگئے جنرل مشرف کے دور میں نیشنل ری کنسی لی ایشن آرڈیننس (NRO)بھی افواہ تھی جسے 4مہینوں کے اندر حقیقت کا جا مہ پہنا یا گیا ایسی افواہیں مقتدر حلقوں کی طرف سے لو گوں کا ردّ عمل معلوم کرنے کے لئے اڑا ئی جا تی ہیں ردّ عمل سامنے آنے کے بعد ان کو حقیقت میں بدل دیا جا تا ہے مو جودہ حا لات میں اگر وسط مدتی انتخا بات ہوئے تو ملک اور قوم کے لئے اس کے بھیا نک نتائج سامنے آئینگے 25جو لائی 2018کے انتخا بات میں کیا برائی تھی؟ کیا نقا ئص تھے؟ اگر وسط مدتی انتخا بات پر ایک بار پھر 21ارب روپے لگا ئے گئے تو اُن نقا ئص یا برائیوں سے نئے انتخا بات کو پاک کرنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے سکتا دوسرا سوال یہ ہے کہ قوم نے ایک جما عت کو اکثریت دی، مینڈیٹ دیا 5سا لوں تک حکومت کر نا اس جما عت کا حق ہے یہ جمہوریت کا اصول ہے جب تک وزیر اعظم خود صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی مشورہ نہ دے تب تک اکثریتی جما عت کی حکومت کو کا م کا مو قع ملنا چا ہیے یہ اُس کا جمہوری حق ہے مگر جمہوریت کے پودے کے ساتھ ہمارا روایتی سلوک انا ڑیوں وا لا سلو ک ہے ہم بڑی محنت سے زمین تیا ر کرتے ہیں بر طا نیہ، امریکہ، یورپی یونین، کامن ویلتھ اور دیگر ذرائع سے جمہوریت کا پودا کشکول میں ڈال کر لے آتے ہیں بڑے چاؤ، پیار، محبت اور ارمان سے اس پو دے کو زمین میں لگا تے ہیں پو دا جڑ پکڑ تا ہے اس پر پتے اور پھو ل آنا شروع ہوتے ہیں تو ہم میں سے ایک شخص آتا ہے پودے کی سیوا کر تا ہے اس کو پا نی دیتا ہے تھوڑی دیر اس کی ہر یا لی کو دیکھتا ہے پھر اس کے گرد زمین کو کدال سے کھود نا شروع کر تا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی جڑوں کو پانی اور خو راک ملتا ہے یا نہیں؟ اس احمق کی تحقیق کا جو بھی نتیجہ ہو، پودا سوکھ جا تاہے ہمیں دوبارہ یورپ اور امریکہ سے رجوع کر کے جمہوریت کا نیا پودا لانا پڑ تا ہے اس پر ہر یا لی آتی ہے تو پھر اس کی جڑوں کو چیک کرنے کے لئے بڑے چاؤ اور پیار سے ہم اس کو اکھاڑ دیتے ہیں ہمارے ہاں جمہوریت بھی لوک کہانیوں کے روایتی پر ندے قُقنس کی طرح ہے ققنس لکڑیاں جمع کر کے ٹال پر بیٹھ کر گیت گاتا ہے سُر بکھیر تا ہے لکڑیوں کو آگ لگ جا تی ہے ققنس جل کر راکھ ہو جا تا ہے راکھ سے پھر جنم لیتا ہے پھر لکڑیوں کا ٹال، پھر گیت اورسُر، پھر آگ اور راکھ، پھر نیا جنم مبصرین اورتجزیہ نگاروں کوبہت دُکھ اُس وقت ہوا جب پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اورسابق صدر آصف علی زرداری نے وسط مدتی انتخا بات کا ذکر کیا اخبار بین حلقوں کو یا د ہے جب 2014ء میں پاکستان تحریک انصاف نے اسمبلیوں کو توڑنے کا مطا لبہ کر کے دھر نا دیا تو سابق صدر زرداری نے اس کی بھر پور مخا لفت کی تھی اور دوٹوک اعلان کیاتھا کہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیئے یہ جمہوریت کا اصول اورجمہوری طاقتوں کا مطا لبہ ہے چنا نچہ اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی اب وہی اصول مو جودہ اسمبلیوں کے لئے ہمارے پیش نظر ہو نا چاہئیے قوم نے جس پار ٹی کو ووٹ دیا ہے وہ پارٹی 5سالوں تک حکومت کرے اس کا فائدہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کو ہوگا حزب اقتدار کویہ فائدہ ہو گا کہ اُسے اپنے منشور ارور پروگرام کو عملی جا مہ پہنا نے کا مو قع ملے گا حزب اختلاف کو یہ فائدہ ہوگا کہ حزب اقتدار نے اگر 5سالوں میں اپنی نا تجربہ کاری، جذباتیت، اقرباء پروری، کرپشن اور دیگر کمزوریوں کی وجہ سے اپنے منشور اور پروگرام پر عمل نہیں کیا تو اگلے انتخابات میں عوام کو منہ دکھا نے کے قابل نہیں رہے گی اپوزیشن کو مو قع ملے گا اگر بفرض محال ڈیڑ ھ سال یا دو سال بعد مصنو عی طریقے سے حکومت ختم کی گئی تواُن کو خواہ مخواہ شہادت کا در جہ ملے گا اور وہ کہے گی ہمیں کام کرنے نہیں دیا گیا ہم 5سا لوں میں ملک کو جنّت کا نمونہ بنا نے والے تھے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے والے تھے افسوس ہمیں مو قع نہیں ملا اور عوام سچ مچ باور کرینگے کہ مو قع دیا جا تا تو ملک کو جنت کا نمو نہ بنا دیا جا تا جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ جیتنے والی جما عت حکومت کرے اور ہارنے والی جماعت اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے تک انتظار کرے پارلیمنٹ کے اندر مثبت انداز میں اپنا کردار ادا کرے ایسا نہ ہوا تو ہماری مثال ایکسر سائز مشین پر 5کلو میڑ چلنے والے کی طرح ہوگی وہ 5کلو میڑ چلنے اور پسینے میں شرابور ہونے کے بعد مشین سے نیچے اتر تا ہے تو پتہ لگ جا تا ہے کہ اُس نے ایک انچ بھی قدم آگے نہیں بڑھا یا وہیں کھڑا ہے جہاں 5کلو میڑ سفر کرنے سے پہلے کھڑا تھا مجھے سب سے زیادہ ترس اُن لو گوں پر آتا ہے جو 10کروڑ روپے خرچ کر کے یا کسی دوست کا پیسہ لگا کراسمبلیوں میں آتے ہیں ابھی ان کو ترقیاتی فنڈ کے نا م پر ”مال غنیمت“میں حصہ نہیں ملا ابھی سینیٹ کے الیکشن بھی نہیں ہوئے وہ لوگ اپنا نقصان کس طرح پورا کرینگے خدا را!وسط مدتی انتخا بات کی بات نہ کرو وہ جو کسی نے کہا تھا ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے“ ہماری مقروض قوم ایک بار پھر 21ارب روپے انتخا بات کی بھٹی میں نہیں جھونک سکتی استاد ذوق کہتا ہے ؎
کسی بیکس کو اے بیداد گرمارا تو کیا ما را
جو خود مر رہا ہوں اس کو اگر مارا تو کیامارا
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات