صدا بصحرا۔۔جابر سلطان کے سامنے۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

جا بر سلطان کے سا منے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے ایک دن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس طرح کی جسارت کی تھی پھر کا لے کو ٹ والوں کو لیکر اسے سڑ کوں پار آنا پڑا طویل اور صبر ازما جد و جہد کے بعد جا بر سلطان کے جبر سے نجات مل گئی اس وقت ایک اور جج شو کت صدیقی جا بر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی سزا بھگت رہے ہیں در اصل دونوں فا ضل ججوں کو جا بر سلطان کے دربار میں رکھی ہوئی لغت کا علم نہیں تھا یہ ایسی لغت ہے جس میں لفظوں کے معنی وقت کو دیکھ کر بدل دیئے ہیں سکینڈ کی سو ئی کے ساتھ الفاظ کے نئے معانی سکرین پر آجا تے ہیں مثلاً “کرپٹ “انگریزی کا لفظ ہے ایک زمانہ تھا اس کے معنی تھے “بد عنوان “پھر لغت بدل گئی اس کے معنی ہوئے “نا پسندیدہ “پھر لغت بدل گئی اس کے معنی آئے “مخا لف”پھر لغت بدل گئی اس کے معنی آئے “اپو زیشن “ایک بار پھر لغت بدل گئی اس کے معنی آگئے “رکا وٹ ” یعنی میری راہ میں جو بھی رکا وٹ ہے وہ یقینا کر پٹ ہے اللہ جانے اس لفظ کو مزید کتنے معنی پہنا ئے جا ئینگے تا ہم آخری معنی زیادہ معنی خیز معلوم ہو تا ہے یعنی جو شخص سڑک کے بیج میں رکا وٹ تھا وہ سڑک کے اُس پار جا کر پو را کر پٹ بنتا ہے سڑک کے اس پار آکر جابر سلطان سے بغل ہو تاہے تو صاف، شفاف اور فرشتہ صفت ہو جا تاہے اسی طرح کا لفظ “دھر نا “ہے جابر سلطان کی لغت میں دھر نا دو مختلف معنوں میں استعمال ہو تاہے جا بر سلطان کے حق میں دھر نا دیا جا ئے تو حب الوطنی کا اعلیٰ نمونہ ہے جابر سلطان کی مر ضی کے خلاف دھرنا دیا جائے تو انتہا ئی بد اخلا قی ہے حد در جے کی غداری ہے ملک دشمنی ہے شاعر نے کیا خوب کہا ؎
میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے حد ہے
تیری ہر بات ہے سر آنکھو ں پر
میری ہر بات ہی رد ہے حد ہے
زندگی کے دیگر شعبوں میں جا بر سلطان اپنی لغت منوا لے تو زیادہ فرق نہیں پڑ تا مگر انصاف کے ترازو کو پکڑ کر اپنی مر ضی سے تولنا شروع کرے توقیا مت آجا تی ہے لا ہو ر کے ایک مشہور تھیٹر میں شو تھا فنکار نے مداری کا روپ دھار کر ایک شخص کو بچہ جمبورا بنا یا تھا اسے لٹا کر اس کے اورپر چادر ڈال دی چھری لیکر چادر کے نیچے اُ س کا سر تن سے جدا کیا چادر کے نیچے سے خون بہتا ہوا باہر آیا تو ریت کی دیوار بنا کر خون کو روکا اب مداری ڈکڈگی بجا تا تھا اور چادر کے نیچے ذبح شدہ کردار کا الگ رکھا ہو اسر بول رہا تھا
مداری: بتا تو کون ہے؟
بچہ:معمول۔
مداری: میں کون؟
بچہ: عامل
مداری: تیرا کیا نا م؟
بچہ: جمبورا
مداری: میرا کیا نا م؟
بچہ: استاد!
مداری: بچہ جمبورا! گھوم جا
بچہ: گھوم گیا استاد
مداری: بتا کدھر ہے؟
بچہ: ایون فیلڈ میں ہوں
مداری: یہ کس کا گھر ہے؟
بچہ: اس کا ما لک مجھے پسند نہیں
مداری: اس کا فیصلہ کیسے ہوگا
بچہ: نا منطور استاد!
مداری: ذراگھوم جا
بچہ: گھوم گیا
مداری: بتاؤ کدھر ہو؟
بچہ: بنی گالہ میں ہو ں
مداری: مالک کون ہے؟
بچہ: سڈا اپنا بندہ ہے استاد جی!
مداری: جلدی بتا کیا لکھا جائے!
بچہ: منجور استاد جی! منجور
جا بر سلطان کی تازہ ترین ورادات یہ ہے کہ دو بئی میں پاکستانیوں کی جائدادوں کا حساب مانگا جا رہا ہے اگر مالک ہمارے ساتھ ہے ہمارے رشتے کی خا لہ یا پھو پھی ہے چچا زاد یا داماد ہے تو منجور، اگر مالک کا تعلق دوسرے گروہ سے ہے تو نا منجور یہ جا بر سلطان کی لغت ہے کوئی کچھ نہیں کہ سکتا کسی میں مجال نہیں کہ کچھ کہے جا بر سلطان کا تازہ فرمان یہ ہے کہ پا کستان اسلام کے نام پرنہیں بنا تھا گوادر کی بندر گاہ پر اگر اومان کی سلطنت کے ذریعے اسرائیل کے جہاز لنگر اندار ہونگے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا آئین میں اٹھارویں تر میم کے ساتھ صو بائی خود مختاری، تو ہین رسا لت کے قا نون اور عقیدہ ختم نبوت کی آئینی ضما نت کو ختم کیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ہم نے آئی ایم ایف سے پیسہ لینا ہے چین سے تر قی کا سبق سیکھناہے اور امریکہ سے اپنے اقتدار کی ضما نت مانگنیی ہے دنیا کے ساتھ چلنا ہے آگے بڑ ھنا ہے ہماری راہ میں کوئی رکا وٹ بنے گا تو وہ مودی کا یا ر ہو گا، غدار ہو گا،گرفتار ہو گا،سنگسارہو گا،ذلیل وخوار ہو گا کہا جا تا ہے کہ اکیسویں صدی جمہو ریت کی صدی ہے ٹیکنا لو جی کی صدی ہے تر قی اورخوشحالی کی صدی ہے لیکن کلمہ حق کہنے والے پوچھتے ہیں کہ ایسی صدی کہاں آئی ہے ہم کو تو پتّھرکے زما نے میں دھکیل دیا گیا ہے چنگیز خان سے بھی سوال پو چھا جا سکتا تھا اس دور میں تو سوال بھی نہیں پوچھا جا سکتا بہادر شاہ ظفر نے قید افرنگ میں محبوس ہو کر کہا تھا ؎
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے جیتے جی اکیسویں صدی میں جا بر سلطان کا زما نہ دیکھا جمال خوشقچی کی زبان کٹتے دیکھی، عطاء الحق قاسمی پر آرے چلتے دیکھے ورنہ اس شعر کا مفہوم کبھی سمجھ میں نہ آتا ؎
کیسا یہ دستور زباں بندی ہے تیری مخفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان مری