ہٹلر کو جاکے رپورٹ دی گئی کہ ہماری فوجیں ہر محاذ پہ شکست کھا رہی ہیں خدشہ ہے کہ جنگ ہار جائیں شکست کھائیں۔۔ٹوٹ پھوٹ جائیں۔ہٹلر نے کہا کہ اگر ایسا کچھ ہے تو اپنے اساتذہ کو کہیں محفوظ پناہ گاہ میں جمع کرو ان کی حفاظت کرو۔۔قوم پھر سے پنپ جائے گی۔۔اساتذہ پہ اعتبار ہر قوم میں ہر زمانے میں اور ہر لحاظ سے رہا ہے۔۔اساتذہ قوم کو تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ بنانے میں کردار ہی ادا نہیں کر رہے ہیں بلکہ انہی کی بدولت یہ سب کچھ ہوتا ہے۔۔لیکن اساتذہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بھی وہ بنتے ہیں۔ایک لولی پاپ ہے کہ ان کو احترام کا دھوکہ دیا جاتا ہے۔۔جہان جاؤ ان کی حیثیت ایسی ویسی نہیں پولیس کا حوالدار،فوج کا سپاہی، بنک کا کلرک،پٹواری،ڈی سی کا کلاس فور،عدالت کا محرر، وکیل کا سیکریٹری اپنا کام نکالتا ہے۔۔لیکن استاد کی باری نہیں آتی۔۔کسی محفل میں ریٹائرڈ صوبیدار سے مشورہ لیا جاتا ہے ایک ماہر تعلیم کی اتنی حیثیت نہیں ہوتی کہ اس سے کچھ پوچھا جائے۔۔یہ اس قوم کا ان پڑھ ہونے کا ثبوت ہے کہ اہل علم کی قدر نہیں ہوتی۔علم کی ناقدری جہالت کی نشانی ہے۔۔اساتذہ اپنی ڈیوٹی کماحقہ ادا نہیں کرتے۔اس لئے ان کی قدر گھٹتی ہے۔۔مگر یا اس قوم کی مجبوری سمجھیں یا کچھ اور بہت ساری ڈیوٹیاں اسی اُستادسے انجام دلواتے ہیں یا تو یوں سمجھتے ہیں کہ قوم کے بڑوں کے نزدیک یہ نسبتاً فارغ بیٹھے ہیں۔ اس لے یہ ڈیوٹیاں ان سے کراتے ہیں۔ان ڈیوٹیوں کو ”اضافی خدمات“ کہہ سکتے ہیں مثلا الیکشن ڈیوٹی،مردم شماری کی ڈیوٹی،خانہ شماری،ڈیٹا کلکشن،امتحانی ڈیوٹی اور بہت ساری ایسی ڈیوٹیاں ہیں جو اساتذہ سے کرائے جاتے ہیں اور شکر ہے اساتذہ ان کو کماحقہ انجام دیتے ہیں۔۔ابھی تک کوئی شکوہ و شکایت کا موقع نہیں آیا۔لیکن کچھ سالوں سے اس طبقے کے بارے میں دبی زبان میں باتیں شروع ہوئی ہیں۔۔ اس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔۔کہا جا تا ہے کہ گورنمنٹ کے اساتذہ کام نہیں کرتے ہیں۔ان کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔۔وہ اقربا پروری اور کرپشن کا شکار ہوتے ہیں۔امتحانات ان کے ہاتھوں برباد ہوتے ہیں۔تعلیم کا معیار گر رہا ہے۔سیاست میں ملوث ہوتے ہیں۔ان کے پاس قابلیت کچھ نہیں۔۔ان کو چاہیے کہ اپنے کو بچوں کو فلان سکول میں داخل کرے۔ٹیوشن نہ پڑھائے۔۔فارع وقت میں کوئی کام نہ کرے۔ابھی ایک فیصلہ آیاہے کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ امتحانہ ڈیوٹی نہیں کریں گے۔امتحان ایرے غیرے کوئی لیں گے۔۔تاکہ امتحانی نظام درست ہو۔۔ان باتوں اور فیصلوں کو دیکھ دیکھ کر عجیب لگتا ہے کہ یہ طبقہ کسی زمانے میں معمار قوم ہوا کرتا تھا۔۔اس زمانے میں یہ میٹرک پاس ہوا کرتا تھا۔اس کی ٹریننگ بھی برائے نام ہوا کرتی تھی۔۔لیکن اس پہ اعتماد تھا۔اس کی عزت تھی۔اس کو جو کام سونپا جاتا تو تسلی کی جاتی کہ کام استاد کو حوالہ کیا گیا ہے۔۔ درست ہو گا۔۔دنیا کے ہر ملک میں استاد پہ اعتماد کیا جاتا ہے اور اس کو ایمرجنسی کی بنیاد پہ کام سونپا جاتا ہے۔اور اعتماد کیا جاتا ہے۔لیکن ملک خداد میں موجودہ حا لات میں استاد ہی وہ طبقہ رہ گیا ہے جس پہ انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں کہ وہ ”یہ“کام نہیں کر سکتا۔۔اگر استاد سے کوتاہیاں ہوئی ہیں تو یہ کام کرنے والے کی نہیں سسٹم کی کوتاہی ہے۔مثلا ًامتحانی ڈیوٹی میں کوتاہی ہوتی ہے تو یہ اس سسٹم کی خرابی ہے جس کے اندر یہ ہوتا ہے۔۔امتحانی ہالوں کے اندر کتنی الیمنٹ اثر انداز ہوتے ہیں۔۔امتحالی ڈیوٹی اس حد تک غیر موثر ہو گیا ہوتا ہے کہ ایماندار استاد اس ڈیوٹی کو کرنے سے قاصر تھا۔۔اب یہ ڈیوٹی استاد سے لیکر دوسروں کے حوالہ کیا جا رہا ہے۔۔اے ٹی ایس اور این ٹی ایس وغیرہ سسٹم کا بھی ہمارا تجربہ ہے کہ وہ کس طرح شفا ف ہیں۔۔یہ تو کم تعداد میں ہیں اب صوبے میں اتنے بڑے امتحانی ہالوں کو سنبھالنا اور سسٹم کو شفاف بنانا اگر اتنا اسان کام تھا تو بہت پہلے اس پہ سوچنا چاہیے تھا۔۔۔اب سسٹم بدل کے استاد کو یوں پیش کیا جا رہا ہے کہ استاد یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔۔استاد کر سکتا ہے۔۔اس نے ہر کام کو ہر زمانے میں چیلنج کے ساتھ قبول کیا ہے۔اور کرکے دیکھایا بھی ہے۔۔اب اس پہ اعتماد نہ کرنے کی توجیہ کہاں سے آئی ہے۔۔اس کو بے حوصلہ کیا جاتا ہے۔۔اس کو ایک طرح سے کنارے پہ لگایا جاتا ہے۔درست ہے کہ گورنمنٹ سکولوں میں کچھ اساتذہ تجربے اور اہلیت کے لحاظ سے کمزور ہیں ان میں صلاحیت ایسی نہیں لیکن کیا ان کی وجہ سے پوری برادری سے اعتماد اٹھنا چاہیے۔۔اب یہ امتحانات کن ایمانداروں کے حوالے کیے جائیں گے۔اگر ایسا ہوا تو اساتذہ خوش ہیں۔۔استذہ معیار تعلیم چاہتے ہیں۔۔اپنے اداروں کو بہترین ادارہ اور اپنے شاگردوں کو باصلاحیت دیکھنا چاہتے ہیں۔مگر پتہ نہیں معاشرے کا ہر طبقہ اس کن اکھیوں سے دیکھتا ہے استاد کو دیکھ کر اس کا پارہ چڑتا ہے۔اس انہونی میں اساتذہ کو اپنا حوصلہ اور معیار گرنے نہ دینا چاہیے۔۔ان سے زمہ داریاں چھینی جائیں اس سے اس کا مقام بھی چھینے کی کوشش کی جائے تو اس کو پرواہ نہیں۔اس کا مقام شاگرد کے دل میں ہوتا ہے۔کسی انسان کے دل تو اس کے سینے سے نہیں نوچا جا سکتا۔۔مجھے کوفت اس بات پہ نہیں کہ اساتذہ امتحانی ڈیوٹی نہیں کریں گے مجھے قلق اس بات پہ ہے کہ اساتذہ یہ کام نہیں کر سکتے۔۔موجودہ حکومت کی ہماری دعائیں ہیں کہ معیار تعلیم بلند کرے اس کے لئے اساتذہ کو جو قر بانی دینی ہو تیار ہیں۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات