سیاحت اور حکومتی اقدامات۔۔محکم الدین اویونی

Print Friendly, PDF & Email

سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کیلئے یہ امر باعث مسرت ہے ۔ کہ موجودہ حکومت نے سیاحت کو ترقی دے کر ملکی معشیت میں بہتری لانے کے سلسلے میں اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں سیاحت کی ترقی کے حوالے سے کئی اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ جس سے وزیر اعظم عمران خان کی سیاحت کی ترقی میں ذاتی دلچسپی نمایاں ہے۔ اس سے یہ اُمید پیدا ہوئی ہے ۔ کہ موجودہ حکومت سیاحت کو ترقی دینے کیلئے پُر عزم ہے۔ سیاحت کے شعبے کو گذشتہ کئی سالوں سے ملک میں پھیلی دہشت گردی کی وجہ سے نقصان پہنچا تو دوسری طرف اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں مرکز اور صوبوں کے اختیارات کا تنازعہ اور بعض حکومتوں کی طرف سے ٹورزم کے ابجد سے بے خبر افراد کو بطور منسٹر اختیارات تفویض کرنے کے عمل نے اس شعبے کا جو ستیا ناس کیا۔ اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ خیبر پختونخوا میں کم اخراجات سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے اور نوجوانوں کو روزگار دینے کا اگر کوئی شعبہ موجود ہے۔ تو وہ سیاحت ہے۔ جس کو اگر سنجیدہ طورپر ٹھوس پالیسی کے تحت ترقی دینے کی کوشش کی جائے تو نہ صرف حکومتی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔ بلکہ اس شعبے سے وابستہ افراد اور سیاحتی مقامات کے لوگوں کی زندگی میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ وزیر اعظم کا یہ اقدام بھی قابل ستائش ہے۔ کہ انہوں نے اس حوالے سے تشکیل شدہ ٹاسک فورس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سطح پر رکاوٹوں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تاکہ اُن رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے حل تلاش کرنے میں مدد دی جا سکے۔ سیاحت کا فروغ اگرچہ صوبائی ذمہ داری ہے۔ تا ہم اس شعبے کو درپیش مسائل حل کرنے کیلئے وفاق کی طرف سے دلچسپی نہایت ہی حوصلہ افزا ہے۔
چترال کے لئے یہ اور بھی باعث مسرت ہے۔ کہ وزیر اعظم کی طرف سے جو ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔ اُس میں چترال کے شہزادہ سراج الملک کا نام بھی شامل ہے۔ جنہیں اس شعبے میں کافی تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے چترال میں سیاحت کے فروغ کے لئے ذاتی حیثیت سے بھی کافی کام کیا ہے۔ لیکن جب تک حکومتی سطح پر کسی شعبے کی ترقی کیلئے اقدامات نہیں کئے جاتے۔ اُس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ یہ بات ہر کوئی بہتر جانتا ہے ۔ کہ ایک سیاح کیلئے سب سے اہم چیز ساحتی مقام تک آسان طریقے سے رسائی اور پُر امن ماحول ہے۔ لیکن بد قسمتی سے حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے چترال ان دونوں مسائل کا شکار ہے۔اول تو سیاحت کے اداروں کے اندر آپس میں روابط کا فقدان ہے۔ چترال میں قائم ٹورسٹ انفارمیشن اینڈ فسلٹیشن سنٹر کو سوائے چند سیاحتی پمفلٹس کے چوکیداری کرنے کے کسی چیز کا علم نہیں ہے۔ کیونکہ صوبائی سیاحتی ادارے کے آفیسران چترال میں ہونے والے کسی ایونٹ کے حوالے سے ان سے بات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے بلکہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ۔ حالانکہ چاہیے تو یہ کہ چترال میں منعقد ہونے والے تمام ایونٹس اور سیاحتی مقاصد کے تحت ہونے والے تمام کاموں کے بارے میں اُنہیں معلوم ہو، بلکہ یہ اُن کی انجام دہی کے ذمہ دار ہوں۔لیکن ٹورزم کارپوریشن خیبر پختونخوا اُن کو اعتماد میں لیتی ہے،اور نہ وسائل فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح چترال میں قائم اس سنٹر کو دانستہ طور پر مفلوج کردیا گیا ہے۔ جس کے ملازمین انتہائی مشکل میں اپنی ذمہ د اری انجام د ے رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے۔ تو مختلف ایونٹس میں کروڑوں روپے اُڑائے جاتے ہیں۔ جس میں اصل سٹیک ہولڈر جن کی بدولت ایونٹس منعقد ہوتے ہیں۔ اُن پر اخراجات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اسی طرح سیاحوں کو سڑکوں کے کربناک عذاب سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ایک سیاح کو چترال پہنچنے کے بعد مختلف سیاحتی مقامات کی وزٹ کرنے کیلئے جن سڑکوں سے جا نا پڑتا ہے۔ وہ نہ صرف تکلیف دہ ہیں بلکہ پُر خطر بھی ہیں۔ اُس کے علاوہ جا بجا سیکیورٹی کے نام پر مختلف چیک پوسٹوں پر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ جسے کسی بھی طرح بہتر خیال نہیں کیا جا سکتا۔ فروغ سیاحت کیلئے جہاں چترال کے اندر سڑکوں کی فوری تعمیر کی ضرورت ہے ۔ وہاں انٹری پوائنٹ پرتربیت یافتہ اور خوش اخلاق پولیس کے جوانوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی اور بھی اہمیت کی حامل ہے۔ جو سیاحوں سے دوستانہ رویہ روا رکھتے ہوئے اپنی سرکاری ذمہ داری انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔ یہ بات مشاہدے میں آیا ہے۔ کہ ایک سیاح چترال میں جس طرح پوچھ گچھ کے مراحل سے گزرتا ہے۔ کسی بھی ضلع میں سیاحوں کو یہ مشکلات درپیش نہیں ہیں ۔ گلگت بلتستان کو ہی لیجیے۔ وہاں انٹری پوائنٹ پر کلئیرنس کے بعد غیر ملکی ٹورسٹ آزاد گھومتے ہیں۔ اُن کے ساتھ کوئی پولیس سکیورٹی ڈیوٹی نہیں دیتی ۔ لیکن چترال میں کسی بھی فارنر ٹورسٹ کو پولیس کے بغیر گھومنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اس سے ایک طرف سیاحوں کی پرائیویسی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور دوسری طرف پولیس کے اخراجات بھی سیاحوں کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بیرونی دُنیا میں پاکستان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہو رہا۔ سیاحت کی بہتری کیلئے ضروری ہے ۔ کہ سیاحوں کو مختلف چیک پوسٹوں پر تکلیف دینے کی بجائے ون ونڈو اپریشن کے تحت اُن کا ڈیٹا ایک جگہے پر لیا جائے۔ اور پولیس آن لائن سسٹم کے ذریعے ڈیٹا وصول کرکے این او سی، رجسٹریشن کیلئے سیاحوں کو مختلف دفاتر کے چکر لگانے اور بار بار مختلف رجسٹروں میں اندارج کی زحمت سے نجات دلائے۔ ہوٹلوں کے باقاعدہ ریٹس مقرر کئے جائیں۔ تربیت یافتہ مقامی گائیڈ زتیار کئے جائیں۔ ہنڈی کرافٹس کے شعبے کو ترقی دی جائے، روایتی کھانوں کو متعارف کرایا جائے۔ چترال کی ثقافت اور قدیم کھیلوں کو رواج دیا جائے۔ خصوصا چترال کی پہچان کی حیثیت رکھنے والا کھیل پولو کے کھلاڑیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ اور چترال کے تمام کیلنڈر فیسٹولز کو سیاح دوست بنانے کیلئے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو تازہ ہوا میں سانس لینے دیا جائے۔ اور فیسٹول کے مقامات پر تحفظ فراہم کرنے کے نام پر تماشائیوں کو حصار میں گھیرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔