10 اکتوبر ذہنی صحت کا عالمی دن۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

Print Friendly, PDF & Email

پاکستان سمیت دنیا بھر عالمی ادارہ 10 اکتوبر 2018ء کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا گیا۔اس دن کے منانے کا مقصد ذہنی و دماغی امراض سے متعلق معلومات کی فراہمی اور اس حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے کیونکہ اگر کوئی فرد کسی ذہنی یا نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو جائے تو اسے بغیر ہچکچاہٹ فوری طور پر کسی ماہر اور مستند معالج سے رابط کرنا چاہیے تا کہ بروقت علاج سے بیماری پر قابو پایا جا سکے۔ صحت اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور پھر ذہن سب کچھ کنٹرول کرتا ہے۔ عقل کے بغیر انسان کی جسم کی کوئی اہمیت نہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی مختلف رپورٹس کے مطابق” وطنِ عزیزمیں نفسیاتی اور ذہنی امراض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا فرد ڈپریشن کا شکار ہے۔دنیا بھر میں ذہنی صحت کے حوالے سے کافی تشویشناک اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جیسے 2011ء کی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دنیا بھر میں ہر چار میں سے ایک شخص کسی نہ کسی حد تک ذہنی طور پر تناؤ، مایوسی یا ایسے ہی دیگر امراض کا شکار ہوتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں 10سے 20فیصد نوجوان ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ تناؤ یاڈپریشن کا مرض 20سے 40سال کی عمر میں ہونے کا امکان ہوتا ہے،مردوں کی نسبت خواتین اس مرض کا زیادہ شکار ہیں۔دنیا کے ہر چوتھے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد ذہنی معذور ہے۔پاکستان اورعالمی سطح پر غربت میں اضافے کے باعث بھی ذہنی پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت، عدم تحفظ، تعلیم میں کمی، مہنگائی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث ذہنی انتشار میں مبتلا افراد کی تعداد میں گزشتہ دس برس کے دوران سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔پاکستان میں اس وقت ذہنی امراض کے علاج کے لئے صرف چار سرکاری ہسپتال ہیں جو حیدرآباد، لاہور، پشاور اور مانسہرہ میں واقع ہیں، جبکہ ماہرین نفسیات کی بھی کمی ہے اور اس وقت ملک میں صرف 419 ماہرین موجود ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے رشتے دار بھی ان کی نگہداشت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔“
ذہنی امراض کی کئی وجوہات ہیں خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ،بے روزگاری،بد امنی وغیرہ لوگوں میں غصہ،چڑچڑاپن،بے چینی،پسندکی شادی نہ ہونا اور ذہنی دباؤ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ خود کشی تک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے پچھلے چندسالوں سے پاکستان میں خود کشیوں کی تعدا میں اضافہ ہو ا ہے جب سے سوشل میڈیا آیا ہے ہم نے لوگوں اور رشتہ داروں سے ملنا چھوڑ دیا ہے ہر وقت ہم سوشل میڈیا کے ساتھ چپکے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں ہم سب کو اپنی زندگی دوسروں کے لئے وقف کرنی ہو گی ہمیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنا ہو گا جب تک ہم متحرک رہیں گے ہم ذہنی امراض سے بھی دور رہیں گے پاکستان میں مردوں کی نسبت عورتوں کے ذہنی امراض میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو پریشانی کی بات ہے کیونکہ اگر عورت ذہنی امراض میں مبتلا ہو گی تو گھر کا سارا نظام خراب ہو جاتا ہے اس لئے عورت کی صحت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر ہم اپنی جسمانی اور ذہنی صحت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں روزانہ ورزش کو اپنا معمول بنانا ہو گا اس کے علاوہ اپنی زندگیوں میں سادگی پیدا کرنا ہو گی ہمیں اپنی غذا میں تبدیلی لانی ہو گی تب ہم صحت مند زندگی گذار سکتے ہیں۔
ذہنی امراض کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا رویہ ہے اگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لے آئیں تو ذہنی مریضوں کی تعداد کم کی جا سکتی ہے علاج کے ساتھ ساتھ مریض کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنا چاہیے۔ ہمارے ہاں ذہنی مرض کا علاج باعث شرمندگی سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کو بتاتے ہوئے شروم محسوس ہوتی ہے۔آج سے اپنے دماغ کی صحت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں تا کہ آپ جسمانی طور پر بھی صحت مند اور تندرست زندگی گذار سکیں۔
“مشہور زما نہ ضرب المثل ہے کہ”جان ہے تو جہاں ہے “جسمانی و ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرنے کے لئے کچھ ضروری باتیں اپنا شعار بنا ئیں، چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کریں۔ ہر بات کو اپنے ذہن پر سوار مت کریں، اگر کوئی ناموافق بات سنیں یا نظر آئے تو اسے بھلانے کی کوشش کریں، چھوٹوں سے پیار و محبت اور بڑے افراد کا ادب کریں، محبت پانے کی طلب رکھنے کی بجائے محبت بانٹنے والے بنیں، لالچ، حرص و ہوس سے گریز کریں، ہر قسم کے نشہ سے دور رہیں،احساس کمتری کو کبھی خود پر غالب نہ آنے دیں، عبادت الٰہی کے ساتھ ساتھ مراقبہ یعنی خاموشی و یکسوئی سے ارتکاز اور ورزش کی عادت اپنائیں جو ذہنی و جسمانی صحت کیلئے اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ پر امید اور مثبت انداز سوچ اختیار کریں۔ ناامیدی کی کیفیت انسانی دماغ کو کمزور کر دیتی ہے اوراس طرح انسان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے۔ ہنسی خوشی زندگی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔