اپر چترال کا خوبصورت تریں گاؤں ریشن کا قدرتی آفات سے متاثر ہونے کے ساتھ اس کے باسیوں کی زندگی بنیادی سہولیات کی فقدان کی وجہ سے اجیرن ہوکر رہ گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل) اپر چترال کا خوبصورت تریں گاؤں ریشن کا قدرتی آفات سے متاثر ہونے کے ساتھ اس کے باسیوں کی زندگی بنیادی سہولیات کی فقدان کی وجہ سے اجیرن ہوکر رہ گئی ہے اور بار بار حکومتی وعدوں کے باوجود عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوا۔ علاقے کے مسائل معلوم کرنے کے لئے ریشن کے مقام پر چترال پریس کلب کے زیر اہتمام منعقدہ پریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے علاقے کے منتخب ناظمین، کونسلرز اور عمائیدین نے کہاکہ2015ء کی تاریخی اور قیامت خیز سیلاب کے بعد اس گاؤں کے دو سو گھرانے صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور 4.2میگاواٹ کا پیڈو کی ملکیت بجلی گھر کو بھی سیلاب بہا لے گئی جبکہ حکومت نے بار بار اعلان کے باوجود اس کی بحالی کاکام شروع نہیں کیا۔ پریس فورم میں اظہار خیال کرنے والے ویلج ناظم شہزادہ منیر، کونسلر عارف اللہ، عمائدیں علاقہ خواجہ نظام الدین ایڈوکیٹ، نادر جنگ، جوان شاہم، اکبر حسین، محمد نبی خان، صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) کا کا جان اور دوسروں نے کہا کہ سیلاب کے بعد ریشن گاؤں ضلعے کا سب سے ذیادہ متاثر گاؤں تھا جہاں حکومتی امداد بہت کم دیکھنے میں آئی اوربحالی کا سارا کام این جی اوز نے کیااور نہروں کی مرمت کا کام بھی ریڈ کریسنٹ نے انجام دی۔ ہر سال گاؤں کی سینکڑوں اراضی دریا کی طغیانی کی نذر ہوجاتی ہے اور بار بار درخواست کے باوجود بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور ریشن نالہ کی چینلائزیشن اور حفاظتی پشتے بھی درست طور پر نہ ہونے بناپر دوبارہ خطرہ سر پر لٹکتی تلوار کی طرح منڈلا رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ گورنمنٹ ہائی سکول ریشن کا گراونڈ میں تین سال قبل سیلاب کا ملبہ بھر گیا تھا جسے ہٹانے کے لئے سابق ایریگیشن منسٹر اور موجودہ چیف منسٹر محمود خان نے ریشن کے عوام سے وعدہ کیا تھا اور ان ریشن کے عوام خوش ہیں کہ محمود خان نے ان کی تباہی وبربادی کا اندازہ خود کیا تھا اور اب وہ خصوصی دلچسپی لے کر ان کے مسائل حل کریں گے۔ انہوں نے ریشن کے نواحی گاؤں زئیت کے ایریگیشن چینل کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا جوکہ 2015کے سیلا ب سے متاثر ہوا تھا جبکہ اسی گاؤں کی ابنوشی کا اسکیم بھی خصوصی مرمت کا منتظر ہے۔ ریشن کے نمائندگان اور عمائیدیں نے اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ 800سے زیادہ گھرانوں پر مشتمل ریشن گاؤں اب تک پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اور محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی نااہلی کا داستان بیان کرتے ہوئے کہاکہ اس گاؤں کے واٹر سپلائی کو براہ راست نالے سے پانی فراہم کیا جاتا ہے اور یہ وہ واحد واٹر سپلائی اسکیم ہے جہاں واٹر ٹینک نہیں ہے جس کے نتیجے میں پائپوں میں سپلائی ہونے والے پانی میں مٹی اور ریت کے ذرات اور کثافت کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے بھی آجاتے ہیں۔ انہوں نے موقع پر موجود شیشے کی ایک شفاف جگ میں گدلا پانی کو گلاس کو صحافیوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہاکہ اکیسویں صدی میں بھی وہ یہ پانی پینے پر مجبو ر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ریشن نالے پر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی طرف سے جو آر سی سی پل تعمیر کی جارہی ہے، اس کی اونچائی میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے کئی گھرانوں کی بے پردگی ہورہی ہے جوکہ پہلے سے سیلاب سے متاثر تھے جبکہ کئی دکانات بھی متاثر ہوگئے مگر محکمے کی طرف سے ان کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جارہا ہے۔ انہوں نے ریشن کے بیسک ہیلتھ یونٹ میں ڈاکٹر اور دوسرے سہولیات کی کمی کا بھی ذکر کیا جبکہ وٹرنری ڈسپنسری میں بھی اسٹاف کی عدم موجودگی کا ذکر کیا۔ انہوں نے محکمہ وائلڈ لائف کی طرف سے نگہبانوں کو کئی ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہاکہ متاثر ہ ملازمیں تادم مرگ بھوک ہڑتال پرمجبور ہوں گے۔ اس موقع پر ویلج ناظم شہزادہ منیر نے ریشن میں سیلاب سے متاثرہ انفراسٹرکچر کی بحالی کے سلسلے میں ورلڈ ایگریکلچر، اے کے آر ایس پی، ورلڈ فوڈ، یونیسیف اور دوسرے اداروں کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔