انتخابات میں گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں لیکن اس مرتبہ خلاف معمول صورت حال ایسی بنی ہے۔ کہ کسی بھی پارٹی کی واضح کامیابی کے بارے میں بات کرنا انتہائی مشکل ہے۔ لوگ مخمصے کا شکار ہیں۔ جو جس پارٹی سے وابستہ ہے۔ اُسی کی بہتر پوزیشن اُسے نظر آتی ہے۔ پچھلے انتخابات کے مقابلے میں موجودہ الیکشن زیادہ کانٹے دار ہونے کی توقع ہے ۔ جبکہ ہر کوئی اس تجسس میں لگا ہوا ہے۔ کہ آخر وہ کونسی پارٹی ہے جس کے سر چترال کی قومی اسمبلی کا تاج سجے گا۔ یہ بات تو طے ہے۔ کہ موجودہ الیکشن میں فی الحال چار پارٹیاں ہی ایک ہی صف میں نظر آرہی ہیں ۔ جن میں پاکستان مسلم لیگ ن،پاکستان تحریک انصاف ، متحدہ مجلس عمل، پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں۔ دیگر دو پارٹیوں عوامی نیشنل پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ کو قیافہ شناس علیحدہ شمار کرتے ہیں۔ لیکن الیکشن میں حالات بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ کسی بھی وقت کایا پلٹ سکتا ہے ۔ چترال میں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کیلئے ضلع بھر سے گیارہ امیدوار مد مقابل ہیں۔ جن میں ، شہزادہ افتخارالدین پاکستان مسلم لیگ ن ، عبد اللطیف پاکستان تحریک انصاف، مولانا عبدالاکبر چترالی ایم ایم اے ، سلیم خان پاکستان پیپلز پارٹی حاجی عیدالحسین عوامی نیشنل پارٹی، ڈاکٹر محمد امجد چوہدری آل پاکستان مسلم لیگ، سعیدالرحمن راہ حق پارٹی اور تین آزاد امیداواران شہزادہ تیمور خسرو،محمد یحیی اور نثار دستگیرشامل ہیں۔ جبکہ تقدیرہ اجمل ڈاکٹر محمد امجدکے حق میں دستبردار ہو چکی ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی چترال پی کے ون کیلئے پندرہ امیدوار مد مقابل ہیں،جن میں حاجی غلام محمد پی پی پی، عبدالولی خان عابد ایڈوکیٹ پی ایم ایل این، اسرارالدین پی ٹی آئی،مولانا ہدایت الرحمن ایم ایم اے، ڈاکٹر سردار احمد خان اے این پی، سہراب خان اے پی ایم ایل، مولانا سراج الدین راہ حق پارٹی، عطاء اللہ پاک سر زمین پارٹی کے علاوہ امیراللہ، سعادت حسین مخفی، سید سردار حسین شاہ، شفیق الرحمن، عبدالرحمن، مصباح الدین، وزیر خان آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کیلئے میدان میں ہیں۔ جبکہ شہزادہ امان الرحمن جن کیلئے انتخابی نشان الاٹ کیا گیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اسرارالدین کے حق میں دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس وقت ہم صرف قومی اسمبلی کے امیدواروں پر ہی بحث کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے انتخابی مقابلے کے حوالے علیحدہ تجزیہ پیش کریں گے۔ 2018کے انتخابات واحد انتخابات ہیں ۔ جس میں اب تک کسی پارٹی نے جلسہ منعقد کرکے پاور شو کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انتخابات کیلئے وقت کم اور حلقہ وسیع ہونے کی بنا پر امیدواروں کو لوگوں سے ملنے اور کمپین چلانے میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ تاہم ایک بات یقینی ہے، کہ ووٹ کا ٹرن آوٹ زیادہ رہے گا۔ کیونکہ انتخابات گرمی کے موسم میں منعقد ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت چترال میں موجود ہے۔ جو عام طور پر محنت مزدوری، تعلیم اور ملازمتوں کے سلسلے میں سردیوں میں چترال سے باہر رہتے ہیں۔ چترال میں کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد9 26957ہے جو کہ چترال کی کل آبادی 447831کی نصف سے زیادہ ہے۔ جس میں مرد ووٹروں کی تعدا151219اور خواتین ووٹرز کی تعداد 118360ہے۔ اسی طرح تحصیل چترال کے کل ووٹوں کی تعداد 153015 تحصیل مستوج کے کل ووٹوں کی تعداد 116564ہے۔ اگر تحصیل سطح پر امیداروں کو دیکھا جائے۔ تو تحصیل چترال کے 153015ووٹوں کے لئے قومی اسمبلی کے 9 اور صوبائی اسمبلی کے 10امیدوار کھڑے ہیں۔ اسی طرح تحصیل مستوج کے 116564ووٹوں کے ایریے میں قومی اسمبلی کا 1اور صوبائی اسمبلی کے 5امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ یوں تحصیل چترال میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جبکہ تحصیل مستوج میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ کہ یہ کوئی علاقائی سطح پر ہونے والا الیکشن ہے۔ جس میں علاقہ پرستی کو کامیابی حاصل ہو گی۔ لوگ نظریات کے علاوہ شخصیات اور مفادات کی بنیاد پر بھی ووٹ دیتے ہیں ۔ اور بعض لوگ مذہب کو بھی پیش نظر رکھ کر اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی پارٹیوں کی طرف سے الیکشن کے موقع پر اسلام اور غیر اسلام کے مقابلے کی بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اب یہ افواہ بھی گشت کر رہی ہے کہ مذہبی پارٹیوں کی دیکھا دیکھی اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار بھی مسلکی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اور اس بات پر اتفاق کرلیا گیاہے۔ کہ قومی اور صوبائی سیٹیں ہر ممکن طریقے سے حاصل کی جائیں۔ چاہے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار الگ الگ پارٹیوں سے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس باز گشت کا الزام معروف سیاسی وادی لٹکوہ پر لگایا جا رہا ہے۔ جو گذشتہ ادوار میں بھی اپنی سیاسی حکمت عملی اور تدبر کی بنا پر چترال کے بلدیاتی اور جنرل الیکشن پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ لیکن تاحال یہ افواہ ہی معلوم ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار برائے این اے ون چترال سلیم خان اور تحریک انصاف کی طرف سے پی کے ون کے امیدوار اسرارالدین کے سیاسی مخالفین منفی پروپگنڈا کرکے انتخابی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چترال کی سابقہ انتخابی نتائج کو اگر دیکھا جائے۔ تو 2013کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر شہزادہ افتخارالدین کو کامیابی ملی۔ اور انہوں نے اپنے قریبی حریف پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبد اللطیف کوملنے والے 24185ووٹوں کے مقابلے میں 29772ووٹ لے کر 5590ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔ شہزادہ افتخار الدین اُس وقت سابق صدر پرویز مشرف کی جگہ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کہ پرویز مشرف کی طرف سے لواری ٹنل کی دوسری بار تعمیر شروع کرنے کے باعث چترالیوں کے دل میں اُن کیلئے بہت زیادہ محبت، احترام اور جذبہ پایا جاتا تھا۔ اور اُس کا اظہار انہوں نے باوجود مرکز میں آل پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے پورے جوش و جذبہ اور احسان مندی سے دیا۔ اور شہزادہ افتخار الدین کو کامیاب کیا۔ لیکن یہ بھی بہت بڑی حقیقت ہے۔ کہ اس کامیابی میں شہزادہ افتخارالدین کے اپنے ووٹ بینک جو اُن کے والد گرامی شہزادہ محی الدین سے اُن کو منتقل ہو چکا ہے ،کاسب سے بڑا ہاتھ ہے۔ جو کہ شہزادہ محی الدین کی طویل سیاسی کرئیر کا ثمر ہے۔ 2013 میں جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا عبدالاکبرچترالی دوسرے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار چوتھے نمبر پر رہے۔ اب اسی انتخابی نتیجے کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جائے۔ اوریہ دیکھا جائے کہ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران قریبی حریف امیدواروں کی کارکردگی کس طرح رہی۔ اور لوگوں کے تاثرات کیا ہیں۔ تو رائے قائم کرنے میں تھوڑی مدد مل سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر ہم قومی اسمبلی کے سابق ممبر شہزادہ افتخار الدین جو کہ آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ اب وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کی کارکردگی پر نظر ڈالیں۔ تو یہ بات سامنے آتی ہے۔ کہ شہزادہ افتخار الدین نے کامیاب حکمت عملی کے تحت کام کیا۔ سابق حکومت سے قریبی روابط رکھے۔ لواری ٹنل جو کہ لاوارث ٹنل بن چکا تھا۔ وفاقی حکومت کو قائل کرکے پانچ سال کے مختصر عرصے میں 23ارب روپے فنڈ خرچ کروا کر اُس کا افتتاح کرنے میں کردار ادا کیا۔ اگر شہزادہ افتخار الدین خود کو اپوزیشن قرار دے کر وفاقی حکومت سے تعلقات نہ رکھتے۔ تو شاید لواری ٹنل کی اتنی تیز ترین تعمیر ممکن نہ ہوتی، اور ٹنل کی تکمیل کیلئے چترال کے لوگوں کو مزید 23سال انتظار کرنے پڑتے۔ اسی طرح گولین ہائیڈل پراجیکٹ کی تعمیر میں فنڈ کی دستیابی کا جو مسئلہ درپیش تھا۔ وفاقی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات نے اسے بھی روبہ عمل کرنے کو ممکن بنایا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف سے چترال کیلئے 30میگا واٹ علیحدہ بجلی مختص کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 2015کے سیلاب اور زلزلے میں وفاقی حکومت کے ذریعے 2ارب 19کروڑ روپے کی امداد متاثرین میں تقسیم کروایا۔گرم چشمہ روڈ، کالاش ویلی روڈز کو ٹینڈر کے مراحل تک پہنچایا۔ اسی طرح کے دیگر کئی کام کئے ۔ خصوصا اپر چترال کے لوگ جو 2015کے سیلاب کے بعد اندھیروں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ بجلی کی فراہمی سے اُن کو نئی زندگی ملی۔ جس سے شہزادہ افتخار الدین کے قد کاٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے وہ 2013کے اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ کہ باوجود پاکستان مسلم لیگ کے راستے میں بہت زیادہ مشکلات کے وفاق پر اب بھی پی ایم ایل این کی مخلوط حکومت کے قیام کے امکانات ہیں ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ الیکشن کے انعقاد میں کوئی بڑی رکاوٹ نہ ہو۔ شہزادہ افتخار کیلئے اُن کے اپنے خاندان کے شہزادہ تیمور خسرو کی آزاد حییثیت سے انتخابات میں حصہ لینا گو کہ پریشانی کا باعث ہے لیکن شنید ہے سلیم خان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے ۔ اگر ہم 2013کے رنر اپ امیدوار عبد اللطیف پر نظر دوڑائیں۔ تو وہ تحصیل مستوج سے کسی پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی کے واحد امیدوار ہیں ۔
جو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے میدان میں ہیں۔ چترال میں تحریک انصاف نے بھی اپنی بساط کے مطابق کام کیا۔ جن میں تعلیم صحت کے علاوہ انفراسٹرکچر اور دیگر اقدامات شامل ہیں۔ لیکن چترال کو دو ضلع بنانے کے حوالے سے سابق پی ٹی آئی حکومت کے وعدے پر سوالات لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا بیانیہ جو کرپشن کے خلاف اور نیا پاکستان بنانے کے حوالے سے ہے۔ کافی حد تک نوجوانوں میں احساس بیداری پیدا کردی ہے۔ اور نوجوان طبقہ تحریک انصاف کو پسند کرتا ہے لیکن مقامی سطح پر اس پارٹی کے اندر کافی دراڑ پیدا ہوئی ہیں۔ سابق ایم پی اے بی بی فوزیہ کی ناراضگی ہے، رضیت باللہ نے خود کو ایم ایم اے کے پلڑے میں ڈال دیا ہے، ضلعی سطح کے رہنما رحمت غازی کی ناراضگی اور انتخابات میں عدم دلچسپی بھی واضح ہے۔ حاجی سلطان الگ تھلگ نظر آرہے ہیں۔اس کے علاوہ بھی کئی مسائل پی ٹی آئی کے امید وار عبد اللطیف کو درپیش ہیں، ان مسائل کو پیش نظر رکھ کر اگر ووٹ بینک میں اضافے کی بات کی جائے تو کیا 2013کے مقابلے میں عبداللطیف کے موجودہ ووٹ شہزادہ افتخار الدین کا مقابلہ کر سکتے ہیں یہ ایک توجہ طلب سوال ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک اہم امیدوار سابق ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی ہیں۔ جو 2013کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر تیسرے نمبر پر رہے اور 20ہزار ووٹ حاصل کئے۔ لیکن اُن کو اس مرتبہ ایک (Opportunity) یہ مل گئی ہے۔ کہ یہ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ہیں۔ جبکہ پچھلے الیکشن میں یہ صرف جماعت اسلامی کے امیدوار تھے۔ اس لئے ایم ایم اے کو یہ امید ہے۔ کہ جماعت اسلامی اور جمیعت العلماء اسلام کے مجموعی ووٹ کسی بھی مد مقابل امیدوار کو زیر کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے۔ یہ وقت ہی بتائے گا۔ کیونکہ ایم ایم اے میں بھی سابقہ ایم ایم اے کی طرح وہ مثالی اتحاد موجود نہیں۔ جس کی بناپر پر مولانا چترالی کو کامیابی ملی تھی۔ بہت سارے جماعت کے رفقاء کا یہ گلہ ہے۔ کہ مولانا چترالی 2013کے الیکشن کے بعد گئے اور 2018کے الیکشن کیلئے واپس آئے۔ اور چترال سے اُن کا رابطہ انتہائی طور پر محدود رہا،سابقہ ایم ایم اے کی مٹھاس بھی نظر نہیں آرہی، گو کہ نظریاتی لوگ یقینی طور پر ایم ایم اے کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن انتخابات میں گیم چینجر وہ لوگ ہیں جن کا کسی نظریے سے تعلق نہیں، وہ وقت کے ساتھ اپنا وزن جس کے پلڑے میں ڈال دیں کامیابی اُسے ملتی ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ یہ مولانا چترالی کیلئے ایک بہترین موقع ہے۔ ا س صف میں ایک سب سے بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ جو بدقسمی سے پچھلے الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں بُری طرح ناکام رہا۔ بلکہ چوتھے نمبر پر آ کر سابقہ تمام ریکارڈ پر پانی پھیر دیا تھا۔ گو کہ صوبائی نشست میں اُن کو کامیابی ملی تھی۔ اور سلیم خان دوسری بار ایم پی اے منتخب ہو گئے تھے۔ اب کے بار سابق ایم پی اے سلیم خان و صدر پاکستان پیپلز پارٹی ضلع چترال قومی اسمبلی کی نشست کیلئے میدان میں کود پڑے ہیں۔ سلیم خان ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ اور ا اپنے تدبر، شرافت اور اپنے ورکرز سے قریبی تعلق رکھنے کی بنا پر گذشتہ بیس سالوں سے ضلعی اور صوبائی سطح پر چترال اور اپنے پارٹی کی نمایندگی کر رہے ہیں۔وہ ہمیشہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست کو اہمیت دیتے رہے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست کیلئے الیکشن لڑنے کا فیصلہ بہ امر مجبوری کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی چترال میں ایک بڑی پارٹی ہے۔ اور اس پارٹی نے مختلف صورت میں کم از کم 35سال چترال پر حکومت کی ہے۔ خصوصا گذشتہ پندرہ سالوں کے دوران اس کی گرفت چترال پر بہت مضبوط رہی ہے۔ اس لئے ملکی سطح پر پارٹی کے گرتے حالات کے باوجود چترال میں پیپلز پارٹی ایک مضبوط قوت کے طور پر اب بھی موجود ہے۔ سلیم خان کیلئے یہ ایک چیلنج ہے۔ کہ وہ پیپلز پارٹی کی نمایندگی چترال میں قائم رکھ سکتا ہے کہ نہیں۔ گذشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کا نتیجہ انتہائی طور پر خراب رہا ہے۔ اگر سلیم خان کوئی سیاسی حکمت عملی وضع کرکے حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تو یہ اُن کے سیاسی داؤ پیچ کا ہیٹرک تصور کیا جائے گا۔ تاہم مقابلے کی تین پارٹیوں کو آسانی سے زیر کرنا ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں اُن کو مذہبی پارٹیوں کی طرف سے بھی کافی مسائل کا سامنا ہے آنے والا وقت بتائے گا۔ کہ تاج کس کے سر سجے گا۔ اس دوڑ میں شامل ہونے کیلئے عوامی نیشنل پارٹی اور آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدواروں کو بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے ممتاز سیاسی شخصیت عیدالحسین میدان میں ہیں۔ اور اے این پی کا دعوی ہے۔ کہ انہوں نے اپنے سابقہ دور اقتدار میں چترال میں 22ارب روپے کے ترقیاتی کام کئے۔ جن میں عبدالولی خان یونیورسٹی اور عبدالولی خان بائی پاس روڈ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ اے این پی کی قیادت کا یہ دعوی بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ انہوں نے نہ صرف بلا امتیاز چترال میں اربوں کے ترقیاتی کام کئے۔ بلکہ اُس وقت کے وزیر اعلی امیر حیدر ہوتی نے آٹھ مرتبہ چترال کا دورہ کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کو ان تمام ترقیاتی منصوبوں کے باوجود الیکشن کیلئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ تاکہ اُن کا ووٹ بینک اپنے امیدوار کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں مدد گار ہوسکے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ کے اس دوڑ میں آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر ڈاکٹر محمد امجد نے چترال سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اُن کا کہنا ہے۔ کہ وہ سابق صدر پرویز مشرف کی خصوصی ہدایات پر یہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اُن کو امید ہے۔ کہ پرویز مشرف کے شیدائیوں کی چترال میں کمی نہیں۔ اور اس مرتبہ بھی سابقہ کی طرح اے پی ایم ایل کا امیدوار جیت جائے گا۔ غیر جانبدار حلقے یہ کہتے ہیں۔ کہ سابق صدر خود اس نشست پر اگر الیکشن لڑتے۔ تو وہ سب سے مضبوط امیداور ہو سکتے تھے۔ اور یہ بھی ممکن تھا۔ کہ چترال کے ساتھ اُن کی دلی محبت کی لاج رکھتے ہوئے اُن کے احترام میں تمام پارٹیوں کے امیدوار اُن کو بلا مقابلہ کامیاب کرتے۔ لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اب اگر چہ ڈاکٹر امجد اور اُن کی ٹیم کی طرف سے کو ششیں جاری ہیں۔ لیکن وقت کم اور الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے سب ووٹروں سے ملنے میں مشکلات ہیں۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا۔ کہ مطلوبہ ووٹ حاصل کرنا اے پی ایم ایل کیلئے ممکن ہو۔ جس سے کامیابی کا زینہ چڑھا جا سکے۔ تاہم پرویز مشرف کے سپاہی اور بہی خواہ اُن کے امید وار ڈاکٹر امجد کو کامیاب کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ الیکشن میں اہلسنت الجماعت کی راہ حق پارٹی کے امیداور مولانا سعیدالرحمن بھی قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ جنہوں نے اپنا الگ تشخص برقرار رکھنے کیلئے دیگر مذہبی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کو سختی سے مسترد کیا ہے ۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات