جنگلاتی علاقوں میں بہت پہلے سے رائیلٹی کی تقسیم ہر خاندان کے نفوس کے حساب سے کی جاتی رہی ہے۔ جے ایف ایم سی شرکاء و عمائدین کا پریس کانفرنس سے خطاب

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمایندہ چترال میل) چترال کے جنگلاتی علاقوں کے جائنٹ فارسٹ منیجمنٹ (جے ایف ایم سی) کے ممبران اور نمایندگان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھر کی طرف سے جنگلات کی رائیلٹی کی تقسیم کے نئے طریقہ کار کو مسترد کرتے ہوئے اسے چترال میں بڑے پیمانے پر فساد پیدا کرنے اور جنگلاتی علاقے کی باپردہ خواتین کو بے پردہ کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے۔ کہ یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تمام تر خراب حالت کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنر چترال اور انتظامیہ چترال پر ہوگی۔ چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل شیر محمد، حاجی انظر گل، ناظم شیر محمد، سیف اللہ، ملک شیر زمین وغیرہ نے کہا۔ کہ چترال میں جنگلات کی رائیلٹی حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق قائم شدہ جے ایف ایم سی کے ذریعے سے اب تک تقسیم ہو چکے ہیں۔ اب جے ایف ایم سیز کو بائی پاس کرکے ڈپٹی کمشنر چترال اپنے سٹاف کے ذریعے ویریفیکیشن کرنے کا جو عمل شروع کیا ہے۔ اس سے بہت بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔ اور اُن کا یہ طریقہ غیر قانونی اور جنگلاتی علاقے کے کلچر اور ماحول کے بالکل خلاف ہے۔ جسے اگر نہ روکا گیا۔ تو گھمبیر مسائل چترال میں پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا۔ کہ جنگلاتی علاقوں میں بہت پہلے سے رائیلٹی کی تقسیم ہر خاندان کے نفوس کے حساب سے کی جاتی رہی ہے۔ چونکہ جے ایف ایم سی کے ممبران اپنے علاقے کے تمام لوگوں کے حالات اور افراد سے زیادہ باخبر ہیں۔ اس لئے مردو خواتین سب اس سے مستفید ہوتے رہے۔ اور اب تک کوئی بھی خاتون رائیلٹی نہ ملنے کی شکایت لے کر انتظامیہ یا عدالت میں نہیں آئی۔ اس لئے انتظامیہ کی طرف سے خواتین کو رائیلٹی سے محروم رکھنے کی بات میں کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ یہ بہت افسوسناک امر ہے۔ کہ ڈپٹی کمشنر چترال رائیٹی کی رقومات طویل مراحل سے گزر کر جب تقسیم کیلئے آئے ہیں۔ تو خواتین کو رائیلٹی سے محروم رکھنے کی بات کی آڑ میں جے ایف ایم سی کو بائی پاس کرنے اور جنگلاتی علاقوں کی باپردہ خواتین کو وریفیکیش کے نام پر بے پردہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو کہ جنگلاتی علاقوں کے لوگوں کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ جنگلاتی علاقوں کے پاس سوائے رائیلٹی اور شناختی کارڈ کے کوئی حکومتی سہولت دستیاب نہیں۔ اب اسے بھی متنازعہ بناکر مجبور کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ جے ایف ایم سی نے نہ صرف رائیلٹی تقسیم کی ہے۔ بلکہ کئی علاقوں میں جنگلات کے سینکڑوں تنازعات بھی ان ہی جے ایف ایم سیز نے حل کئے۔ اب اُس کو بائی پاس کرنا کُھلی سازش اور ضلع کے امن کو برباد کرنے کی کوشش ہے۔ جسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا۔ جے ایف ایم سیز نے کئی مقدمات اور علاقے کی ضروریات کیلئے مختلف لوگوں سے لے کررقم خرچ کئے۔ اب جے ایف ایم سی کو بائی پاس کرکے براہ راست رقم کی تقسیم سے لوگوں کے قرضہ جات کوں ادا کریں گے۔انہوں نے کہا۔ کہ ارندو میں خراب حالات کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اور ڈپٹی کمشنر اسٹاف لوگوں کی عدم موجودگی میں نہ جانے کس کی ویرفیکیشن کر رہے ہیں۔ جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے دس دنوں کے اندر مسئلہ حل کرنے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا۔ کہ اس کے بعد چترال کو سوختنی لکڑی اور عمارتی لکڑی کی ترسیل بند کی جائے گی۔ جس کے ذمہ دار ڈپٹی کمشنر چترال ہوں گے۔