افغان خانہ جنگی کے دوران ابھرنے والے لیڈر انجینئر گلبدین حکمتیار نے فارمولا پیش کیا ہے کہ آئندہ صدارتی انتخابات سے پہلے تمام افغان جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آکر اتفاق رائے سے افغانستان کی آزادی کے ایجنڈے پر کام کرنا چاہیئے طالبان کی قیادت کو بھی مذاکرات کی میز پر لاکر متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیئے اور ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو معاف کرکے نئی شروعات کے لئے فضا ہموار کرنی چاہیئے خیالی طور پر یہ بہت خوبصورت باتیں ہیں فارمولا بھی خوبصورت ہے عالمی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں نبی کریم ﷺ نے میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ اور فتح مکّہ کے تین بڑے مواقع پر متفقہ لائحہ عمل دے کر دشمنوں کو معاف کرکے تاریخ میں مثال قائم کی تھی انگریزی میں اس کو ”شاخ زیتون“ olive branchکہا جاتا ہے پشتو روایات میں یہ کام”تیگہ“ کہلاتا ہے
1990ء،میں جنوبی افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا نے 27سالوں کی جدوجہد اور قید و بند کی صعوبتوں کے بعد الیکشن جیت کر تمام دشمنوں کو معاف کیا اور تاریخ میں اپنا نام رقم کیا اگر انجینئر گلبدین حکمتیار نے دشمنوں کو معاف کرکے متفقہ لائحہ عمل اپنانے میں افغان قوم کی مدد کی تو یہ ان کا زرین کارنامہ ہوگا اور افغان تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا مگر یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جب امریکہ اور سویت یونین کی جنگ افغانستان میں جاری تھی تو انجینئرگلبدین حکمتیار امریکی کیمپ کی طرف سے لڑ رہے تھے پشاور کے قریب ورسک روڈ پر حکمتیار کا بہت بڑا مرکز تھا پاکستانی سیاست میں باڈی گارڈ اور 10گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انجنیئر گلبدین حکمتیار نے پشاور میں متعارف کرایا اس کے بعد پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے ان کی تقلید میں یہ طریقہ اختیار کیاافغانستان کی سیاست میں انجینئر گلبدین حکمتیا ر نے ماضی میں کسی بھی دوسری جماعت کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا وطیرہ اپنایا تھا برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجدّدی اور ملا محمد عمر کے ادوار میں حکمتیار نے باغی کا کردار ادا کیا ایک دور میں انہیں وزیر اعظم نامزد کیا گیا مگر برہان الدین ربانی کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے انہوں نے یہ منصب بھی قبول نہیں کیا اس تناظر میں انجینئر گلبدین حکمتیار کی طرف سے مصالحت کا فارمولا بہت خوش آئند پیش رفت ہے ایک نئی سوچ اور ایک نئی فکر کی نشان دہی کرتا ہے اگر دوسرے لیڈر بھی افغانستان کے بہتر مستقبل کے لئے نئی سوچ اور نئی فکر اپنانے پر توجہ دیں تو روشنی کی کرن نظر آسکتی ہے مگر اس راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں یہ فارمولا جتنا آسان نظر آتا ہے عملی اعتبار سے اتنا ہی مشکل اور گران ہے اگر افغانستان کی موجودہ سیاست میں حکمتیار کی طرح نئے زاویے سے سوچنے والے دوسرے لیڈر پیدا ہوجائیں ہم خیال لیڈروں کا ایک گروپ وجود میں آئے تو ان کو چار اہم محاذوں پر کامیابی حاصل کرنی ہوگی پہلا محاذ 40سالہ افغان خانہ جنگی کے تمام فریقوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے کیونکہ ہر فریق کو باہر سے امداد ملتی ہے اور کوئی بھی فریق اس امداد سے محروم نہیں ہونا چاہتا ان کو خانہ جنگی جاری رکھنے کے لئے بے پناہ دولت ملتی ہے اس کو ٹھکراناکسی بھی افغان فریق کیلئے مشکل ہے40سالوں میں امریکہ، روس، برطانیہ، چین، فرانس اور جرمنی سمیت تمام اقوام نے یہ تجربہ حاصل کیا ہے کہ افغانوں کی سب سے بڑی کمزوری ”ڈالر“ ہے جب تک ڈالر ہے تب تک افغانوں کا اتحاد بہت مشکل ہے دوسرا محاذ نسلی تعصب، فرقہ ورانہ دشمنی اور قبائلی عصبیت کا ہے اس عصبیت کی وجہ سے ماضی میں بھی افغان تاریخ داغدار رہی ہے 1747ء میں ایران کی غلامی سے آزادی کے بعد افغانستان میں تاجک اور پختون دشمنی نے سر اُٹھایا ڈھائی سو سال یہ دشمنی رہی یہاں تک کہ سگے بھائیوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر آنکھیں پھوڑ نے کا گھناؤنا جرم بھی کیا 1980ء میں امریکیوں نے شیعہ سنی رقابت کی بنیاد رکھی اس بنیاد پر ہزاروں لوگ قتل ہوئے حکمتیار اور ان کے ساتھیوں کے لئے باہمی رقابت اور تعصب کا یہ محاذ بھی بہت مشکل محاذ ہے تیسرا محاذ افغانستان میں اپنی اپنی پراکسی (Proxi) لڑائی لڑنے والے ممالک کے ساتھ نمٹنے کا محاذ ہے مثلََا سعودی عرب اور ایران کی لڑائی ہے بھارت اور پاکستان کی لڑائی ہے چین اور امریکہ کی لڑائی ہے روس اور امریکہ کی جنگ ہے ان جنگوں کے تمام فریق افغان امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں ان کو بتانا ہوگااپنی جنگ اپنی سرحدوں پر جاکر لڑو افغان قوم کو ”ریت کی بوری“ کے طور پر استعمال نہ کرو آخر میں سب سے اہم محاذ آتا ہے یہ محاذ امریکی مفادات کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہونے کا محاذ ہے اپریل 1978ء سے اب تک 40سالوں میں امریکہ نے افغانستان پر قبضے کے لئے 800ارب ڈالر خرچ کئے اس کا مفاد خانہ جنگی کو جاری رکھنے میں ہے خانہ جنگی جتنی تیز ہوگی امریکہ کو اتنا ہی فائدہ ہوگا اس لئے امریکہ نے جن گروپوں کو خانہ جنگی کے لئے مسلح کیا ہے ان کو کبھی غیر مسلح ہونے نہیں دیگا افغان مصالحتی عمل کی کامیابی کا مطلب امریکہ کی ناکامی ہے اور امریکہ آسانی سے اپنی ناکامی کا راستہ ہموار نہیں کرے گا بہرحال حکمتیار کا مشن اہم ہے اس مشن کی کامیابی میں افغان قوم کی آزادی اور افغانستان کی خودمختاری کا راز پوشیدہ ہے ہماری دعائیں حکمتیار کے ساتھ ہیں بقول خواجہ حیدر علی آتش
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتر ے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار را ہ میں ہے
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات