نشے کا مرض۔۔تحریر: اقبال حیاتؔ آف برغذی

Print Friendly, PDF & Email

نشہ!ظاہری طو ر پر دو حروف پر مشتمل ایک لفظ ہے۔ مگر جب یہ لفظ سننے میں آتا ہے۔ تو بدن پر کپکپی کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ لفظ اپنی ہیئت کے لحاظ سے متعضن ہوتا ہے۔ اس لفظ کے دامن میں مختلف رنگ، قسم اور شکل کی ایسی نا پسندیدہ چیزیں لپٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ جنہیں کھولنے کا شوق رکھنے والا نہ صرف انسانی صفات سے محرو م ہوتا ہے۔ بلکہ معاشرے کے لئے وبال بن جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نشہ طاری ہونے کے دوران نماز کے قریب بھی جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ لفظ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انسانی معاشرے کی تباہی کے لئے ایٹم بم سے مماثلت رکھتا ہے۔ اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کو عقل و خرد سے نواز نے کے باوجود یہ نا شکر بندہ دیکھتی آنکھو ں اپنے ہاتھوں سے مہلک امراضی کے جراثیم کو اپنی صحت کے جڑوں میں داخل کر تا ہے۔ بدن کی فطری اور قدرتی کیفیت کو بدلنے میں لذت اور سرور محسوس کر تا ہے۔ اللہ پاک کی ودیعت کردہ معطر وجود کو متعفن بناتا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے ان اشیاء کو استعمال کر تا ہے جنہیں ان کی نوعیت کے اعتبار سے مذہب، اخلاق اور معاشرہ تحقیر اور نفرت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ نشے کا مرض جب کسی کو لاحق ہوجائے تو اس سے نہ صرف چھٹکارہ مشکل ہوتا ہے بلکہ یہ ایک متعدی مرض کی صورت اختیار کر تا ہے۔ عموماً یہ مرض نوجوان نسل میں بہت تیزی سے سرایت کر تا ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد دوسروں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ اور خصوصاً متمول افراد کو اپنا ہم مشرب بنا نے کی کاوش کر تے ہیں تاکہ نشہ آور آشیاء پر اٹھنے والے اخراجات کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ یوں نوجوان نسل کی اس بے رہروی سے نہ صرف قوم کی درخشان مستقبل کی ساری امیدیں معدوم ہوتی ہیں بلکہ والدین جو اپنی اولاد کی کامیابی و کامرانی کے آرزو مند ہوتے ہوئے انہیں اپنے بڑھاپے کے ایام میں سہارا بننے کا خواب دیکھتے ہیں وہ نہ صرف چکنا چور ہو جاتی ہیں بلکہ الٹا یہ اولاد خود عمر رسید والدین کے نحیت کندھوں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
اس مرض کے لاحق ہونے کے محرکات کا اگر بغور جائیزہ لیا جائے تو اس میں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت، بے حسی، قومی جذبے کا فقدان اور مفاد پر ستی اپنی نوعیت کے لحاظ سے مسلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ والدین کی اولاد کی پرورش کے طور طریقوں اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور “خالی دماغ شیطان کا مسکن “ہونے کے بقول روزگار کے ذرائع سے محرومی کو بھی اس زہر ہلاہل کو اپنانے میں اہم عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ قانونی طور ر ایک ممنوعہ نشہ آور چیز کے حصول تک دسترس حاصل کرنے کو ممکن بننے کے اسباب کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہر ذی شعور انسان اسکی ذمہ داری سے انتظامیہ کو بر ی الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔کسی کی جیب سے تلاشی کے بعد چرس، افیون، نشہ آور گولیان وغیرہ نکالنے کو اگر فرض کی ادائیگی سے تعبیر کیا جائے تو مذکورہ اشیاء کے دھندے میں ملوث انسانو ں کے روپ میں انسانیت کے خونخواہ بھیڑیوں کو قانون کے شکنجو ں میں کیوں نہیں لایاجاتا۔ معاشرے کے یہ نامور لوگ کسی طرح بھی نرمی کے مستحق نہیں ہوتے جو دوسروں کی اولاد کے خون سے اپنی اولاد کی دنیا رنگین کرنے کے گھناونے فعل کا ارتکاب کر تے ہیں۔ بحر حال یہ ایک ایسا سوال ہے جس میں ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر مقدم رکھنے کا تصور پنہان ہے۔ البتہ نشے کا شکار اپنی نوجوان نسل کے سامنے اس مسلمہ حقیقت کو بطور آئینہ رکھتا ہوں جو ذندگی کے اختتامی لمحات کی پیشمانی کی منظر کشی کر تا ہے۔
جوش جوانی میں ہم لاکھوں گناہ کر بیٹھے اقبال
ہم کو معلوم نہ تھا خدا کو منانے کی عمر ہی جوانی ہے
کیونکہ
در جوا نی تو بہ کر دن شیوہ پیغمبر یست
وقت پیری گرگ ظالم می شور پر ہیزگار