داد بیداد۔۔این ٹی ایس والے اساتذہ۔۔۔نیا امتحانی نظام۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

این ٹی ایس والے اساتذے

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک
خیر سے ہمارے ہاں اساتذہ کی کئی قسمیں پید اہوگئی ہیں ایک دن خبر آگئی ہے کہ ایٹا (ETEA) والے اساتذہ نے بنی گالہ جا کر دھرنا دیا،دوسرے دن خبر آئی کہ پبلک سروس کمیشن والے اساتذہ ے بنی گالہ جاکر دھرنا دیا پھر خبر آئی کہ این ٹی ایس والے اساتذہ نے بنی گالہ میں دھرنا دیا خان صاحب نے سب کی بات سُنی سب کو مطمئن کیا این ٹی ایس والے اساتذہ کا معاملہ سب سے الگ ہے اور بنوں،ڈی آئی خان،ہزارہ اور ملاکنڈ سے لیکر پشاور تک سب اس بات سے متفق ہیں کہ این ٹی ایس کے ذریعے جو اساتذہ بھرتی ہوئے ان کی قابلیت میں کوئی شک نہیں میرٹ کی شفافیت میں کلام نہیں 3 سال بعد مسئلہ پیدا ہوا ہے وہ یہ کہ استاد ایم ایڈ یا ایم فل کر نے کیلئے این اوسی کی درخواست دیتا ہے تو درخواست یہ کہہ کر مسترد کی جاتی ہے کہ این ٹی ایس والوں کو اجازت دینے کی ”اجازت“نہیں ایک ٹیچر اتمان زی سے نا گمان آکر پڑھاتی ہے دوسری ٹیچر ناگمان سے اتما نزی جا کر پڑھاتی ہے دونوں باہم تبادلہ کرنا چاہتی ہیں مگر درخواست دینے کی اجازت نہیں کیونکہ ان کے اوپر این ٹی ایس کا لیبل لگا ہو اہے ایک ٹیچر ورسک سے روز سفر کر کے تارہ جبہ جاتا ہے ورسک میں ایک سال سے پوسٹ خالی ہے اُس گاوں کا استاد وہاں تبدیل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ این ٹی ایس کے ذریعے آیا ہے 3 سال بعد این ٹی ایس اُس کے لئے بلا اور مصیبت بن گئی ہے این ٹی ایس اساتذہ کے ساتھ خان صاحب نے ہمدردی کا اظہار کیا اُن کو انصاف کی یقین دہانی کے ساتھ واپس کر دیا مگر محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا پھربھی اپنی ضد پر قائم ہے کہ یہ لوگ این ٹی ایس والے ہیں ان کو اگر مستقل کیا گیا تو تقرری کی تاریخ سے نہیں ہوگا بلکہ 3 سالہ ملازمت اور 6 مہینوں کی ملازمت والوں کو ملا کر ایک تاریخ دی جائیگی سینارٹی کسی کو نہیں ملے گی 2014 ؁ء میں بھرتی ہونے والی ٹیچر 2017 ؁ء میں بھرتی ہونے والی ٹیچر کے ہمراہ ایک ہی تاریخ میں مستقل ہونے کا پروانہ حاصل کر ے گی”تقرری کی تاریخ“کے الفاظ کا ٹ کر دسمبر 2017؁ ء کی کوئی تاریخ ڈال دی جائیگی یہ اُن کی سزا ہے کہ انہوں نے این ٹی ایس کا امتحان کیوں پاس کیا تھا؟ ان اساتذہ میں کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو دوسری جگہوں میں دو سال،تین سال یا 5 سال سروس کا تجربہ لیکر آئے تھے محکمہ تعلیم کے حکام تجربہ بھی نہیں مانتے سابقہ سروس کا ریکارڈ بھی نہیں مانتے ایک صاحب نے گولڈ مڈلسٹ استاد کی فائل اس کے منہ پر مارتے ہوئے کہا تمہیں کس نے کہا تھا کہ این ٹی ایس کا امتحان دو؟ایک دوسرے صاحب نے این ٹی ایس اساتذہ کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے دھمکی دی کہ عمران خان کی حکومت جاتے ہی تمہارا بوریا بستر گو ل کر دیا جائے گا تم لوگ ہمارے لئے مصیبت بنے ہوئے ہو اُن صاحب کے دو بیٹے،دو بھانجیاں اور دو بھتیجے این ٹی ایس کے تین ٹیسٹوں میں باجماعت فیل ہوئے تھے اس لئے وہ اپنا غصہ پاس ہونے والوں پر نکال رہے ہیں این ٹی ایس اساتذہ کو خان صاحب کی یقین دہانی پر بھروسہ ہے اُن کے مسائل حل کئے جائینگے ان کو ایم ایڈ،ایم فل اور دیگر امتحانات کی اجاز ت مل جائیگی ان کو سرکاری ملازم کا درجہ دے کر مستقل کیا جائے گا گھر کے قریب خالی پوسٹ پر تبدیلی کا حق بھی مل جائے گا تقرری کی تاریخ سے مستقلی کا حق بھی مل جائے گا خان صاحب نے جو جو وعدے کئے ان پر عمل ہوگا مگر راستے میں مگر مچھوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں ان میں سیاسی لوگ بھی ہیں اور افسر شاہی کے کل پرزے بھی ہیں بقول مرزا غالب؎
دامِ ہرموج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھئے کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

ؔ
نیا امتحانی نظام
حکومت نے سکولوں کی سطح سے لے کر کالجوں کی سطح تک نیا امتحانی نظام متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جو رٹہ سسٹم اور بوٹی مافیا کو ختم کر کے تصورات پر مبنی امتحان کا سسٹم ہو گا آج کل اولیول،اے لیول کے لئے اس طرح کا نظام کا م کر تا ہے آغاخان یونیورسٹی ایجوکیشن بورڈ کا طریقہ کا ر بھی اس طرز پر قائم ہے اعلی تعلیم کے ٹیسٹ، گیٹ (GAT) سیٹ (SAT)، ETEA اور جی آر ای کے ٹیسٹ اس طریقے پر لئے جاتے ہیں حالیہ برسوں میں این ٹی ایس کے جو امتحانات لئے گئے وہ بھی اس اصول پر مبنی تھے حکومت نے اب اس طریقہ امتحان کو پانچویں جماعت سے شروع کرنے کا پروگرام وضع کیا ہے اگر ایسا ہو اتو اس کا فوری نتیجہ کیا ہو گا؟ آنکھیں بند کر کے سوچئے تو معلوم ہو گا کہ بازار میں ٹیسٹ پیپر،حل،گائیڈ اور پاکٹ سائز گا ئیڈ والا کروڑوں روپے کا بہت بڑا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اسطرح گائیڈ لکھنے اور چھاپنے والے بے روزگار ہو جائینگے انگریزی کے پرچے کے دن پشاور شہر کی 20مارکیٹوں میں 50ہزار پاکٹ سائز گائیڈ فروخت ہو ا کرتے تھے اب ایسا نہیں ہو گا اب کوئی طالب علم کتا ب لیکر امتحانی ہال میں جائے گا تو کتاب اُس کے کام نہیں آئے گی کیونکہ تصورات پر مبنی پرچہ کتاب سے نہیں آئے گا نصاب سے آئے گا ہمارے ہاں 98فیصد سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ اور طلباء طالبات کو یہ بھی علم نہیں کہ نصاب کس چڑیا کا نام ہے تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو ا ہے کہ کمرہ جماعت میں نصا ب اور نصاب کے اہداف کا ذکر شروع ہو اہے کیونکہ پر چہ نصاب کے اہداف کو سامنے رکھ کر مرتب کیا جارہا ہے کتاب کو سامنے رکھ کر نہیں دونوں میں نمایاں فرق ہے کتاب میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ قائداعظم کب پیدا ہوا؟ کہاں پیدا ہوا، رٹہ ان باتوں کا ہوتا ہے گائیڈ میں یہ باتیں آتی ہیں پانی پت کی پہلی لڑائی کب لڑی گئی دوسری لڑائی کب لڑی گئی تیسری لڑائی کب لڑی گئی؟ فیثا غورث کہاں پیدا ہوا؟ آئن سٹائن کس عمر میں مرا؟ ڈاروِن کے باپ کا کیا نام تھا؟ اور نیوٹن کا استاد کون تھا؟تصورات پر مبنی پرچے میں ایسے سوالات نہیں ہو تے نصاب میں ہر مضمون اور ہر سبق میں اہداف دئیے گئے ہیں ان اہداف کو ایس ایل اوز (SLos) یعنی طالب علم کی تعلیم کے ممکنہ نتائج کہا جاتا ہے مثلاََمطالعہ پاکستان پڑھنے کے بعد طالب علم کو قائداعظم کے افکا ر اور پاکستان کے نظریاتی اساس کا علم ہونا چاہیے بیالوجی کے طالب علم کو جانوروں،کیڑے مکوڑوں اور پودوں،جڑی بوٹیوں کے خواص کا علم ہونا چاہیئے ان کی مختلف کیفیات کا علم ہونا ضروری ہے اس مقصد کے لئے ترقی یا فتہ ممالک میں نصاب کی کتابوں کو ختم کر دیا گیا ہے نصاب کے اہداف کو سامنے رکھ کر طلباء اور طالبات کو چیدہ چیدہ موضوعات پر تعلیم دی جاتی ہے مثلاََ کشش ثقل کا سبق کمرہ جماعت میں پڑھا یا جائے گا طلبا ء اور طالبات مختلف تجروبات کے ذریعے اس کا مظاہر ہ دیکھنیگے اس کے بعد وہ ڈیسک پر آکر ان تجربات کو لکھینگے اور چار یا پانچ نتائج اخذ کرینگے یہ نتائج نصاب کے اہداف ہیں امتحان میں کشش ثقل اور وزن کے باہمی تعلق پر جتنے بھی سوالات آئینگے طلباء اور طالبات اپنے تجربات کی روشنی میں نصاب میں دیئے اہداف کے مطابق جواب لکھینگے یہاں پر یا ر لو گوں کا ٹیسٹ پیپر کا م نہیں دے گا پاکٹ سائز گائیڈ لے کر ہا ل میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا چند سال پہلے ہمارے صوبوں کو انٹری ٹیسٹ کا نمونہ آغاخان یونیورسٹی نے دیا تھا ا ب بھی آغاخان یونیورسٹی میں نصاب کے اہداف پر مبنی امتحانات کے لئے اساتذہ کی تربیت،کمرہ جماعت میں اسباق کی تیاری اور تکمیل کے بعد امتحانات کا مربوط سسٹم موجود ہے یہ سسٹم ہمارے تعلیمی اداروں میں لایا جا سکتا ہے صرف امتحانی نظام کو لانا کا فی نہیں اساتذہ کی تربیت سے لے کر کمرہ جماعت میں سیکھنے اور پڑھانے کے عمل کوبھی نئے نظام سے ہم آہنگ کرنا ہو گا آپ رٹہ کی تعلیم دیکر تصورات کا امتحان نہیں لے سکتے صوبائی حکومت کا فیصلہ قابل ستائش ہے تعلیمی بورڈوں کے پاس اس نظام کو چلانے کی اہلیت اور صلاحیت بھی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو مربوط تعلیمی سسٹم کے تابع کیا جائے تاکہ مطلوبہ نتائج بر آمد ہو سکیں۔
لوگوں کو ہے آفتاب جہانتاب کا دھوکا
ہرروزدکھاتا ہوں اک داغِ نہاں اور