ذرا سوچئے۔۔تحریر:ہما حیات چترال

Print Friendly, PDF & Email

آج کل کے دور میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ لوگوں کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے کم وسائل میں بھی سخت محنت کر کے ان مسائل کا حل نکاتے ہیں یہ لوگ کسی کے مدد کے طلب گار نہیں ہوتے انہیں اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اور یہ تب تک محنت کرتے ہیں جب تک انکو کامیابی حاصل نہیں ہوتی مثلاً لاسپوریارخون،تورکہو،لوٹ اویر،ارکاری،کریم آباد وغیرہ کے لوگ جو کئی سالوں سے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے آج شام ڈھلتے ہی ان کے گھر روشنیوں میں نہلا جاتے ہیں انھوں نے اپنے کم وسائل میں اتنی بجلی پید ا کرلی ہے کہ ان کا کام ہو جانے کے باو جود بھی کئی واٹ بجلی یوں ہی ضائع ہو جاتی ہے یہ تو تھا دیہاتی لوگوں کا حال اب ذرا شہری لوگوں کے حالات پر بھی غور کیجئے شہری علاقوں مثلاً دروش،چترال،بونی وغیرہ کے لوگوں کا ٰخیال ہے کہ ان کے مسائل صرف حکومت ہی حل کر سکتی ہے اور یہ لوگ حکومت کو اپنی عوامی قوت دکھانے کیلئے صرف جلوس اور نعرے بازی کرتے ہیں ان جلسوں کے پیچھے بھی کئی سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہوتا ہے وہ اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے لوگوں کو ان جلسوں میں دھکیل دیتے ہیں اب آپ میرے چند سوالوں پر غور کیجئے کیا یہ محنت کرنے والے درست ہیں یا پھر جلوس اور نعرے بازی کرنے والے؟ان کے ان جلوسوں سے فائدہ کس کس کو ہوتا ہے؟اور نقصان کون برداشت کرتا ہے کیا صرف سڑکیں بند کرنے سے آپ کو بجلی مل سکتی ہے؟با لکل نہیں آپ کے ان احمقانہ حرکتوں سے تکلیف صرف آپ کو ہی ہوتی ہے کسی بیمار ماں کو ہوتی ہے سکول جانے والے چھوٹے بچوں کو ہوتی ہے کسی دور کے مسافر کو ہوتی ہے اگر دیہات کے لوگ اپنے گھروں کو روشن کرسکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں؟اس جدید دور میں جہاں آپ کو پانی بھی میسر ہے اور ٹیکنیکل ماہرین بھی تو کیا آپ بجلی پیدا نہیں کر سکتے تو کیا سڑکوں پر نعرے بازی کرنے والی عوامی قوت کو اپنی طاقت بنا کر اپنے لئے بجلی کا انتظام نہیں کر سکتے؟ خدارا!خود پر رحم کیجئے آگر آپ سچ میں اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو ہمت کیجئے اپنے آپ پر بھروسہ کیجئے اور پھر سوچئے ”ہمت مردان مدد خدا“
؎