یا تو قوم اس بات سے صاف انکار کر دے کہ ان کا کوئی معمار نہیں ہے۔۔یا تو معماروں پہ فخر کرے۔۔تیسری بات کوئی نہیں۔۔اگر انکار کرے تو پھر ساری قوم یا تو ان پڑھ اور غیر تربیت یافتہ ہے اور اگر اقرار کر ے تو پھر لازم ہے کہ وزیر اعظم سے لے کر صدر تک وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیر تعلیم تک سب کے معمار ہوئے ہونگے۔۔سب کی انگلیاں پکڑ کر ان سے الف با جیم لکھوائے ہوے ہونگے۔۔اگر ایسا ہے تو ان کا احترام کرنا سب پہ لازم ہوگا۔۔مہذب قومیں ایسا کرتی آئی ہیں۔۔فخر موجودات ﷺ نے اپنے معلم ہونے پہ فخر کیا۔۔علی مرتضی ؓ نے فرمایا۔۔جس نے مجھے ایک حرف پڑھایا میں اس کا غلام بن گیا چاہے وہ مجھ کو فروخت کر دے۔۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اپنے بیٹے کو استاد کے پاس پڑھانے کے لئے لے جا رہا تھا۔۔اپنے سارے پیسے چادر میں باندھ کے اپنے ساتھ لے گیا اور استاد سے کہا کہ میرے پاس صرف اتنے ہی پیسے تھے اگر اور ہوتے تو لے آتا۔۔استاد کی داستان بہت پرانی ہے۔۔دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے وزیر اعظم کو رپورٹ دی گئی کہ انگریز فوج ہر محاذ پے در پے شکست کھا رہی ہے۔۔وزیر اعظم نے کہا۔۔جاؤ عدالتوں اور سکولوں میں جا کر دیکھو کہ اگر استاد پڑھا رہا ہے اور جج انصاف کر رہا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔۔۔استاد ہر زمانے میں استاد رہا ہے اس کو کسی نے چھیڑا نہیں بے سکون نہیں کیا۔۔با ت سسٹم کی ہے وہ استاد کا کام نہیں حکومت اور محکمے کی زمہ داری ہے۔ اس کو کتنا مضبوط صاف شفاف اور کار آمد بناتا ہے۔۔اگر استاد کام نہیں کر رہا ہے تو غور کرنا چاہئے کہ کمزوری کہاں پہ ہے۔۔ایسا نہیں کہ ایک محنتی مخلص اور لائق فائق استاد بھی اس ستم ظریفی کا شکار ہو جائے اور قوم ایک مخلص معمار سے محروم ہو جائے۔۔سسٹم میں کمزوری کا رونا ایک مخلص استاد بھی روتا ہے مگر اس کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا۔۔اس کا حل نہیں ڈھونڈا جاتا۔۔صرف ایک دلیل ہے کہ پبلک سکولوں میں بچے قابل ہیں۔۔کیوں ہیں؟وجہ کیا ہے؟اس پر غور نہیں کیا جاتا۔۔پبلک سکولوں میں قابلیت کا معیار ہے۔۔داخلے کے لئے ٹسٹ انٹرویو ہے۔۔اساتذہ کے کام کی خوب نگرانی ہے۔۔والدین کا اہم رول ہے۔۔بچوں کے پاس پیسہ ہے۔ان کا خاندان تعلیم یافتہ ہے بچے گھر میں کام کرتے ہیں۔۔اگر پبلک سکول میں نہ چل سکیں تو ان کو خارج کیا جاتا ہے۔۔یہ سب حقائق سرکاری اداروں میں خواب ہیں۔۔ سرکاری اداروں میں پوری قوم ہے۔۔لائق نالائق۔نااہل یا اہل۔۔امیر غریب بلکہ بہت ہی غریب۔۔ٹسٹ انٹرویو کوئی نہیں۔۔بس داخلہ دینا ہے۔۔اور جو پبلک سکولوں میں نہیں چل سکا ہے اس کو تعلیم یافتہ بنا نا ہے۔۔ساتھ امتحانی سسٹم تباہ و بربا د ہے۔۔اب وہ اساتذہ جن کے ہاتھوں یہ خام مال پر ورش پاتی ہے اس کو ہراسان کیا جا رہا ہے۔۔پبلک سکول شہروں میں ہیں بے شک۔۔لیکن سوال ہے کہ کیا یہ ساری قوم شہروں میں رہتی ہے۔۔وہ دور افتادہ علاقے جہان پہ جینا حرام ہے یہ اساتذہ وہاں اس قوم کو الیف با پڑھا رہے ہیں ان کو ہراسان کیا جا رہا ہے۔۔کیا حکمرانان وقت کو اندازہ نہیں کہ اس پسماند گاؤں کا ایک بچہ اگر ڈی سی نہیں بن سکتا تو پاک آرمی کا سپاہی بنتا ہے اور شیر کی طرح دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہو تا ہے وہ اس سمے استاد کا پڑھایا ہوا قوم و ملک سے وفا کا وہ سبق دھراتا ہے جسے اس کے استاد نے کلاس روم میں اسے پڑھایا ہو ا تھا۔۔اور فخر سے اپنی جان دیتا ہے۔۔اس استاد کو ہراسان کیا جارہا ہے جو وفا اور صداقت کا سبق پڑھا رہا ہے۔۔یہ سبق حکمران کیوں بھول جاتے ہیں ۔۔کیا یہ اس کی بے وفائی نہیں ہے کہ وفا کا سبق پڑھانے والے کا احترام بھول جاے۔۔بات قابل غور ہے کہ گورنمنٹ سکولوں میں تعلیمی عمل کمزور ہے۔۔مگر کیا تعلیم صرف کاغذکے ایک پرزے کا نام ہے یا تربیت کا بھی نام ہے۔۔ہمارے نوجوان جو تعلیم یافتہ ہو کے میدان میں آرہے ہیں کیا وہ واقعی تربیت یافتہ بھی ہیں ان کو انسانیت اور تہذیب کا سبق پڑھایا گیا ہے۔۔ان کا لباس،ان کا انداز، دین مبین سے ان کی وابستگی،انسانیت کی عزت اور احترام ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔۔کیا سرکاری سکول کا استاد اس تربیت میں پیچھے ہے۔۔میرے خیال میں تربیت کا یہ کام سرکاری سکولوں میں پراؤیٹ سکولوں سے بہتر اس استاد کے ہاتھوں ہو رہاہے جس کو آج نااہل سمجھا جا رہا ہے۔۔موجودہ حکومت کا احسن قدم مانئٹرینگ کا سسٹم ہے اداروں میں اصلاح آرہی ہے۔۔مگر خاموش انقلاب کے نام سے جو تبدیلی لانے کا سوچا جا رہا ہے یہ تباہی ہے۔۔کہا جا رہا ہے کہ استاد کی پیشہ ورانہ تربیت کی کوئی ضرورت نہیں یوں پالیسی بنانے والے آکے کسی پرائمیری کلاس میں بیٹھیں جس میں ایک تربیت یافتہ استاد پڑھا رہا ہو اور اس کلاس میں بھی بیٹھیں جس میں ایک غیر تربیت یافتہ استاد پڑھا رہا ہو فرق خود محسوس کرے گا۔۔اصلاح یا انقلاب اس کا نام نہیں کہ استاد کے پیچھے پڑا جائے انقلاب اس کا نام ہے کہ استاد سے کام لیا جائے۔۔اس کو مطمین کیا جائے۔۔آج پولیس کے سپاہی کی تنخواہ استاد سے زیادہ ہے۔نرس کی تنخواہ۔۔ڈاکٹر کی تنخواہ۔۔جج کی تنخواہ استاد سے زیادہ ہے۔۔انصاف والو انصاف کی بات کرو کیا یہ کسی استاد کے شاگرد نہیں ہیں۔۔استاد معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔وہ اچھے برے میں سب سے زیادہ تمیز کرنے والا ہوتا ہے۔۔کے پی کے میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے اچھے اقدامات کو سب سے زیادہ سراہنے والے لوگ بھی اساتذہ ہی تھے مگر یہ پالیسی اور سب سے پہلے اساتذہ پر لاگو کرنا ایک غلطی لگتی ہے ایسی غلطی جو کوئی بچہ نادانستہ طور پہ کرے۔۔اساتذہ اس بات سے نہیں ڈرتے کہ ان کے رزق کا دروازہ بند ہوگا۔۔ان کا رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔انھوں نے مرد درویش اقبال کا یہ سبق پڑھا ہے کہ
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اس قوم کا بڑا طبقہ جو پہلے سے محروم ہے اس کو تعلیم و تربیت سے محروم کیا جائے۔۔پہلے ہی اعلیٰ تعلیم اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ یہ طبقہ اس تک نہیں پہنچ سکتا ہے اب مفت تعلیم کا جو خواب ہے وہ بند کیا جائے کیونکہ اگر”جس طرح خدشات کہتی ہیں“ تعلیم کو پراویٹائز کیا گیا۔۔بچہ استاد کا نخرہ اور استاد مالک ادارے کا نخرہ برداشت نہ کر سکے تو اس بچے کا کیا بنے گا۔جس کے کپڑوں کے چھیتڑے نکلے ہوئے ہیں آنکھوں میں غربت کی افسردگی ہے۔۔اگر حکومت وقت کے پاس کان ہیں تو یہ بچہ اب دھائی دے رہا کہ ”خدارا میرے استاد کو ہراسان نہ کیا جائے“
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات