چترال میں شعرو ادب سے خواتین کی دلچسپی بہت پُرانی ہے۔ ڈوک یخدیز، نانو بیگال سمیت متعدد ایسے مرثیے اور لوک گیت آج بھی زبان زد عام ہیں۔ جن کی خالق خواتین ہی تھیں۔ اور یہ مرثیے و گیت کھوار ادب میں خواتین کی بے پناہ صلاحیتوں کا لوہا منوانے کیلئے کافی ہیں۔ لیکن صنفی امتیاز کے تحت صلاحیتوں کی تقسیم پر یقین رکھنے والے مردوں کے تسلط والے اس معاشرے میں جہاں خواتین کے دیگر اوصاف کو قبول کرنے کی ہمت نہیں پائی جاتی۔ وہاں شعرو ادب کے میدان میں اُن کی خدمات کا اعتراف کون کرے؟ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے۔ کہ کھوار ادب کے فروغ کیلئے جو ماحول چترال میں مردوں کو حاصل ہیں۔ اُس کا اگر عشر عشیر بھی خواتین کو میسر ہوں۔ تو وہ کھوار ادب میں مردوں کو بہت پیچھے چھو ڑ جائیں گی۔ مردوں کا ایک طبقہ تو یہ سمجھتا ہے۔ کہ صدیوں سے خواتین کے ذمے معاشرے نے جو کام لگا رکھے ہیں۔ وہی اُن کے کرنے کے کام ہیں۔ اس سے اُنہیں باہرنکلنا نہیں چاہیے۔ اور نکل کر بھی وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو سکتیں۔ اس میں شعرو ادب کا شعبہ بھی شامل ہے۔ جسے چترالی معاشرے میں اب تک مردوں نے اپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ اور خواتین کی حصہ داری تسلیم کرنے کو ذہنی طور پر تیار نہیں۔ حالانکہ شعرو ادب کی ابتدا ماں کی گود سے ہوتی ہے۔ اور ماں جو ایک خاتون ہوتی ہے۔ اپنے دل میں اپنے جگر گوشے کے روشن مستقبل کیلئے آرزووں، امیدوں اورمامتا کی سمندر میں دُھلی محبت بھرے الفاظ کا چناؤ کرتی ہے۔ اورتنہائی و اپنوں کی محفل میں ترنم سے گنگناکر اپنے بچے کوادب کی تعلیم دیتی ہے۔ جو آگے بڑھ کر معاشرے کا ایک باصلاحیت شاعر و ادیب بن جاتا ہے۔ اگر اس بچے کے وجدان میں ادب کے ذرات و خیالات موجود ہو ں۔
ادبی ترقی کا موجودہ دور جسے چترال کے مایہ ناز شعراء و ادباء کھوار ادب کا بام عروج قرار دے رہے ہیں۔ ایک شاعرہ خاتون فریدہ سلطانہ فری کی کتاب کا منظر عام پر آنا کھوار زبان و ادب میں بہت خوبصورت اضافہ ہے۔ فریدہ فری نے اپنی کتاب “ژانو دُشمن “کی طباعت کے بعد کھوار کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہونے کا اعزاز حاصل کر لیاہے۔ اس شعری مجموعے کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ ثابت ہوئی ہے۔ کہ چترال کی خواتین واقعی بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہیں۔ صرف معاشرتی حدو د قیود، خاندانی عدم تعاون اور ثقافتی و روایتی بے جا پابندیاں اُن کی ادبی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کی راہ میں حائل ہیں۔ ورنہ خواتین بھی کھوار ادب کو وہ چار چند لگا سکتی ہیں۔ جس طرح مرد وں کے ادبی حلقوں کے بارے میں کہا جا تا ہے۔
فریدہ سلطانہ فری زمانہ طالب علمی سے لکھتی رہی ہیں۔ بطور ایڈیٹر مقامی اخبار ر ہفت روزہ آواز چترال میں نے اُن کی مختلف موضوعات پر مبنی کئی مضامین شائع کی ہیں۔ لیکن اُن کی کھوار شعرو ادب سے دلچسپی اُس وقت سامنے آئی۔ جب گذشتہ سال 28مئی 2016کوگندھارا ہندکو بورڈ پشاور کے تعاون سے چترال میں پہلی مرتبہ زبان و ادب کے حوالے سے ایک عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اُس کانفرنس میں فریدہ سلطانہ فری کو جو موضوع دیا گیا تھا۔ وہ ادب سے متعلق تھا۔ جس میں انہوں نے اپنے مقالے کے ساتھ کما حقہُ انصاف کیا۔ اور یہی وہ سٹیج تھا۔ جس میں انہوں نے اپنی کھوارشاعری کے ساتھ بے پناہ دلچسپی اور لگاؤ کا اظہار کیا۔ اپنے غیر مطبوعہ مجموعے میں سے چند اشعار پڑھی۔ اور کانفرنس کے شرکاء سے خوب داد وصول کی۔ آ ج گندھارا ہندکو بورڈ کے تعاون سے اُن کا شعری مجموعہ “ژانو دُشمن “چھپ چکی ہے۔ جس کیلئے وہ مبارکباد کی مستحق ہے۔
فریدہ سلطانہ فری نے جہاں غزل کومحبت کا عروسی لباس پہناکر حسن وجمال کے پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے وہاں فراق کی مجبوری، تقدیر کے سامنے بے بسی، دل اور معاشرے کے ہاتھوں مجبوری، حوا کی بیٹی کو درپیش مشکلات، چترال کی بیٹیوں کو بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی ترغیب اور زیور حجاب سے آراستہ رہنے سے متعلق اشعار کو موتیوں ک ی طرح لڑی میں پرو دیا ہے۔ جبکہ آزاد شاعری میں اُن کے خیالات اور بھی لائق تحسین و آفرین ہیں۔
معروف محقق و دانشور ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی،لیکچرر احتشام الدین، ظہورالحق دانش اور اشاعتی تنظیم میئر کے صدر فرید احمد رضا کی طرف سے کتاب پر تبصرہ اور مقالہ پیش کرنا ہی اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔ کہ فریدہ سلطانہ فری کے خیالات کس حد تک بلند ہیں۔ اور آن کی شاعری کس درجے کی ہے۔
فری کی کتاب کھوار ادب میں بہت بڑا اضافہ ہے۔ اس سے چترال کی دیگر بیٹیوں کی ادب کے ساتھ دلچسپی میں بہت مدد ملے گی۔ اور کھوار حقیقی معنوں میں ترقی کے منازل طے کرے گا۔ کتاب کی اشاعت میں مدد اور تعاون کرنے والوں کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ انتہائی ناانصافی ہوگی۔ خصوصاشعری مجموعے کو شائع کرنے والا ادارہ گندھارا ہندکو بورڈ پشاور،اُن کے سیکرٹری جنرل محترم ضیاء الدین صاحب، شاعرہ کا خاندان، کتاب کی ترتیب و تدوین میں کردار اداکرنے والا ادارہ میئر کے صدر فرید احمد رضا و ممبران و صدر انجمن ترقی کہوار چترال شہزادہ تنویرالملک کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ ہماری دعا ہے۔ کہ اللہ رب العزت کھوار ادب کی ترقی کیلئے فریدہ سلطانہ فری کو مزید حوصلہ اور جذبہ عطا فرمائے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات